Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَقَالُوۡا قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ‌ؕ بَل لَّعَنَهُمُ اللّٰهُ بِكُفۡرِهِمۡ فَقَلِيۡلًا مَّا يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿88﴾
یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف والے ہیں نہیں نہیں بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے انہیں اللہ تعالٰی نے ملعون کر دیا ہے ان کا ایمان بہت ہی تھوڑا ہے ۔
و قالوا قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم فقليلا ما يؤمنون
And they said, "Our hearts are wrapped." But, [in fact], Allah has cursed them for their disbelief, so little is it that they believe.
Yeh kehtay hain kay humaray dil ghilaaf walay hain nahi nahi bulkay inn kay kufur ki waja say enhen Allah Taalaa ney malaoon ker diya hai inn ka eman boht hi thora hai.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ہمارے دل غلاف میں ہیں ۔ ( ٦٠ ) نہیں ! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔
اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں ( ف۱٤۸ ) بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں ۔ ( ف۱٤۹ )
وہ کہتے ہیں ، ہمارے دل محفوظ ہیں ۔ نہیں94 ، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے ، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔
اور یہودیوں نے کہا: ہمارے دلوں پر غلاف ہیں ، ( ایسا نہیں ) بلکہ ان کے کفر کے باعث اللہ نے ان پر لعنت کر دی ہے سو وہ بہت ہی کم ایمان رکھتے ہیں
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :94 یعنی ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو ، ہمارے دلوں پر تمہاری بات کا اثر نہ ہو گا ۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلّط ہوتا ہے ۔ وہ اسے عقیدے کی مضبوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں ، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے ، خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کر دیا جائے ۔
خلف کے معنی یہودیوں کا ایک قول یہ بھی تھا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی یہ علم سے بھرپور ہیں اب ہمیں نئے علم کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے جواب ملا کہ غلاف نہیں بلکہ لعنت الہیہ کی مہر لگ گئی ہے ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا خلف کو خلف بھی پڑھا گیا ہے یعنی یہ علم کے برتن ہیں اور جگہ قرآن کریم میں ہے آیت ( وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ ) 41 ۔ فصلت:5 ) یعنی جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس چیز سے ہمارے دل پردے اور آڑ میں اور ہمارے دلوں کے درمیان پردہ ہے آڑ ہے ان پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اسے نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ اسے یاد رکھتے ہیں ایک حدیث میں بھی ہے کہ بعض دل غلاف والے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے یہ کفار کے دل ہوتے ہیں سورۃ نساء میں بھی ایک آیت اسی معنی کی ہے آیت ( وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ) 2 ۔ البقرۃ:88 ) تھوڑا ایمان لانے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایماندار ہیں اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ان کا ایمان بہت کم ہے یعنی قیامت ثواب عذاب وغیرہ کا قائل ۔ حضرت موسیٰ پر ایمان رکھنے والے توراۃ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں مگر اس پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر اپنا ایمان پورا نہیں کرتے بلکہ آپ کے ساتھ کفر کر کے اس تھوڑے ایمان کو بھی غارت اور برباد کر دیتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ یہ سرے سے بے ایمان ہیں کیونکہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر بھی ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں مثلاً میں نے اس جیسا بہت ہی کم دیکھا مطلب یہ ہے کہ دیکھا ہی نہیں ۔ واللہ اعلم ۔