اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں ، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا ، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں مع اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں ۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد حدیث ( انا اللہ افضل ) ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں ، سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے ، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اسمیں کوئی شک نہ کرنا ، دل تنگ نہ ہونا ، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا ، نہ کسی کا لحاظ کرنا ، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبرو استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا ، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے ، یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے ۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو ، اس کے قدم بہ قدم چلو ، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے ، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے ، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی ، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ 116 ) 6- الانعام ) یعنی اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے ۔ سورۃ یوسف میں فرمان ہے اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے ۔