Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
كِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ فَلَا يَكُنۡ فِىۡ صَدۡرِكَ حَرَجٌ مِّنۡهُ لِتُنۡذِرَ بِهٖ وَذِكۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿2﴾
یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ ڈرائیں سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے ۔
كتب انزل اليك فلا يكن في صدرك حرج منه لتنذر به و ذكرى للمؤمنين
[This is] a Book revealed to you, [O Muhammad] - so let there not be in your breast distress therefrom - that you may warn thereby and as a reminder to the believers.
Yeh aik kitab hai jo aap kay pass iss liye bheji gaee hai kay aap iss kay zariye say darayen so aap kay dil mein iss say bilkul tangi na ho aur naseehat hai eman walon kay liye.
۔ ( اے پیغمبر ) یہ کتاب ہے جو تم پر اس لیے اتاری گئی ہے کہ تم اس کے ذریعے لوگوں کو ہوشیار کرو ، لہذا اس کی وجہ سے تمہارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہونی چاہئے ، ( ٢ ) اور مومنوں کے لیے یہ ایک نصیحت کا پیغام ہے ۔
اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے ( ف۲ ) اس لیے کہ تم اس سے ڈر سناؤ اور مسلمانوں کو نصیحت ،
یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے ، 1 پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو ۔ 2 اس کے اتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے ﴿منکرین کو﴾ ڈراؤ اور ایمان لانے والے لوگوں کو یاد دہانی ہو ۔ 3
۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) یہ کتاب ہے ( جو ) آپ کی طرف اتاری گئی ہے سو آپ کے سینۂ ( انور ) میں اس ( کی تبلیغ پر کفار کے انکار و تکذیب کے خیال ) سے کوئی تنگی نہ ہو ( یہ تو اتاری ہی اس لئے گئی ہے ) کہ آپ اس کے ذریعے ( منکرین کو ) ڈر سنا سکیں اور یہ مومنین کے لئے نصیحت ( ہے )
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :1 کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :2 یعنی بغیر کسی جھجک اور خوف کے اسے لوگوں تک پہنچا دو اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے ۔ وہ بگڑتے ہیں ، بگڑیں ۔ مذاق اُڑاتے ہیں ، اُڑائیں ۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ، بنائیں ۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں ، ہو جائیں ۔ تم بےکھٹکے اس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا باک نہ کرو ۔ جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے ، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ حَرَج استعمال ہوا ہے ۔ لغت میں حرج اس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو ۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہُوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکر آدمی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے ۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے ۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِيْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ ( الحجر۸ ، آیت ۹۷ ) ”اے محمد ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ ہوتے ہو“ ۔ یعنی تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفت حق کا یہ حال ہے انہیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے ۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعْضَ مَا یُوحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌۢ بِہ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہ مَلَکٌ ( ہود ، آیت ١۲ ) ” تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جارہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُترایا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا ۔ “ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :3 مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کا اصل مقصد تو ہے اِنذار ، یعنی لوگوں کو رسول کی دعوت قبول نہ کرنے کے نتائج سے ڈرانا اور غافلوں کو چونکانا اور متنبہ کرنا ، رہی اہل ایمان کی تذکیر ( یاد دہانی ) تو وہ ایک ضمنی فائدہ ہے جو اِنذر کے سلسلہ میں خود بخود حاصل ہو جاتا ہے ۔