Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَهُمۡ صِرَاطَكَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ‏ ﴿16﴾
اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا ۔
قال فبما اغويتني لاقعدن لهم صراطك المستقيم
[Satan] said, "Because You have put me in error, I will surely sit in wait for them on Your straight path.
Uss ney kaha ba-sabab iss kay, kay aap ney mujhay gumrah kiya hai mein qasam khata hun kay mein inn kay liye aap ki seedhi raah per bethon ga.
کہنے لگا : اب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے ( ٥ ) اس لیے میں ( بھی ) قسم کھاتا ہوں کہ ان ( انسانوں ) کی گھات لگا کر تیرے سیدھے راستے پر بیٹھ رہوں گا ۔
بولا تو قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں ضرور تیرے سیدھے راستہ پر ان کی تاک میں بیٹھوں گا ( ف۲۱ )
“ بولا ” اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا ،
اس ( ابلیس ) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے ( مجھے قَسم ہے کہ ) میں ( بھی ) ان ( افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے ) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا ( تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں )
ابلیس کا طریقہ واردات اس کی اپنی زبانی ابلیس نے جب عہد الٰہی لے لیا تو اب بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے لگا کہ جیسے تو نے میری راہ ماری میں بھی اس کی اولاد کی راہ ماروں گا اور حق و نجات کے سیدھے راستے سے انہیں روکوں گا تیری توحید سے بہکا کر تیری عبادت سے سب کو ہٹا دوں گا ۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ فبما میں با قسم کے لئے ہے یعنی مجھے قسم ہے میں اپنی بربادی کے مقابلہ میں اس کی اولاد کو برباد کر کے رہوں گا ۔ عون بن عبداللہ کہتے ہیں میں مکے کے راستے پر بیٹھ جاؤں گا لیکن صحیح یہی ہے کہ نیکی کے ہر راستے پر ۔ چنانچہ مسند احمد کی مرفوع حدیث میں ہے کہ شیطان ابن آدم کی تمام راہوں میں بیٹھتا ہے وہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ بننے کیلئے اسلام لانے والے کے دل میں وسوسے پیدا کرتا ہے کہ تو اپنے اور اپنے باپ دادا کے دین کو کیوں چھوڑتا ہے ۔ اللہ کو اگر بہتری منظور ہوتی ہے تو وہ اس کی باتوں میں نہیں آتا اور اسلام قبول کر لیتا ہے ۔ ہجرت کی راہ سے روکنے کیلئے اڑے آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ تو اپنے وطن کو کیوں چھوڑتا ہے؟ اپنی زمین و آسمان سے الگ ہوتا ہے؟ غربت و بےکسی کی زندگی اختیار کرتا ہے؟ لیکن مسلمان اس کے بہکاوے میں نہیں آتا اور ہجرت کر گذرتا ہے ۔ پھر جہاد کی روک کے لئے آتا ہے اور جہاد مال سے ہے اور جان سے ۔ اس سے کہتا ہے کہ تو کیوں جہاد میں جاتا ہے؟ وہاں قتل کر دیا جائے گا ، پھر تیری بیوی دوسرے کے نکاح میں چلی جائے گی ، تیرا مال اوروں کے قبضے میں چلا جائے گا لیکن مسلمان اس کی نہیں مانتا اور جہاد میں قدم رکھ دیتا ہے پس ایسے لوگوں کا اللہ پر حق ہے کہ وہ انہیں جنت میں لے جائے گو وہ جانور سے گر کر ہی مر جائیں ۔ اس دوسری آیت کی تفسیر میں ابن عباس کا قول ہے کہ آگے سے آنے کا مطلب آخرت کے معاملہ میں شک و شبہ میں پیدا کرنا ہے ۔ دوسرے جملے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی رغبتیں دلاؤں گا دائیں طرف سے آنا امر دین کو مشکوک کرنا ہے بائیں طرف سے آنا گناہوں کو لذیذ بنانا ہے شیطانوں کا یہی کام ہے ایک اور روایت میں ہے کہ شیطان کہتا ہے میں ان کی دنیا و آخرت ، نیکیاں بھلائیاں سب تباہ کر دینے کی کوشش میں رہوں گا اور برائیوں کی طرف ان کی رہبری کروں گا وہ سامنے سے آ کر کہتا ہے کہ جنت دوزخ قیامت کوئی چیز نہیں ۔ وہ پشت کی جانب سے آ کر کہتا ہے دیکھ دنیا کس قدر زینت دار ہے وہ دائیں سے آ کر کہتا ہے خبردار نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے ۔ وہ بائیں سے آ کر کہتا ہے دیکھ گناہ کس قدر لذیذ ہیں پس ہر طرفے آ کر ہر طرح بہکاتا ہے ہاں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ اوپر کی طرف سے نہیں آسکتا ۔ اللہ کے بندے کے درمیان حائل ہو کر رحمت الٰہی کو روک نہیں بن سکتا ۔ پس سامنے یعنی دنیا اور پیجھے یعنی آخرت اور دائیں یعنی اس طرح کی دیکھیں اور بائیں یعنی اس طرح نہ دیکھ سکیں یہ اقوال سب ٹھیک ہیں ۔ امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تمام خیر کے کاموں سے روکتا ہے اور سر کے تمام کام سمجھا جاتا ہے ، اوپر کی سمت کا نام آیت میں نہیں وہ سمت رحمت رب کے آنے کیلئے خالی ہے اور وہاں شیطان کی روک نہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ اکثروں کو تو شاکر نہیں پائے گا یعنی موحد ۔ ابلیس کو یہ وہم ہی وہم تھا لیکن نکلا مطابق واقعہ ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ ) الخ ، یعنی ابلیس نے اپنا گمان پورا کر دکھایا سوائے مومنوں کی پاکباز جماعت کے اور لوگ اس کے مطیع بن گئے حالانکہ شیطان کی کچھ حکومت تو ان پر نہ تھی مگر ہاں ہم صحیح طور سے ایمان رکھنے والوں کو اور شکی لوگوں کو الگ الگ کر دینا چاہتے تھے ۔ تیرا رب ہر حیز کا حافظ ہے ۔ مسند بزار کی ایک حسن حدیث میں ہر طرف سے پناہ مانگنے کی ایک دعا آئی ہے ۔ الفاظ یہ ہیں دعا ( اللھم انی اسأالک العفو والعفتہ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی اللھم استر عورانی وامن روعانی واحفظنی من بین یدی ومن خلقی وعن یمینی وعن شمالی و من فوقی و اعوذ بک اللھم ان افتال من تحتی ) مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح شام اس دعا کو پرھتے تھے دعا ( اللھم انی اسألک العافیتہ فی الدین والاخرۃ ) اس کے بعد کی دعا کے کچھ فرق سے تقریباً وہی الفاظ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ۔