Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
ثُمَّ لَاَتِيَنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَيۡنِ اَيۡدِيۡهِمۡ وَمِنۡ خَلۡفِهِمۡ وَعَنۡ اَيۡمَانِهِمۡ وَعَنۡ شَمَآٮِٕلِهِمۡ‌ؕ وَلَاٰ تَجِدُ اَكۡثَرَهُمۡ شٰكِرِيۡنَ‏ ﴿17﴾
پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے
ثم لاتينهم من بين ايديهم و من خلفهم و عن ايمانهم و عن شماىلهم و لا تجد اكثرهم شكرين
Then I will come to them from before them and from behind them and on their right and on their left, and You will not find most of them grateful [to You]."
Phir inn per hamla keroon ga aur inn kay aagay say bhi aur inn kay peechay say bhi aur inn ki dhaani janib say bhi aur inn ki bayen janib say bhi aur aap inn mein say aksar ko shukar guzar na payiye ga.
پھر میں ان پر ( چاروں طرف سے ) حملے کروں گا ، ان کے سامنے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی ، اور ان کی دائیں طرف سے بھی ، اور ان کی بائیں طرف سے بھی ۔ اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گذار نہیں پائے گا ۔
پھر ضرور میں ان کے پاس آؤں گا ان کے آگے اور ان کے پیچھے اور ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے ( ف۲۲ ) اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ( ف۲۳ )
آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائےگا ۔ 12
پھر میں یقیناً ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا ، اور ( نتیجتاً ) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزار نہ پائے گا
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :12 یہ وہ چیلنج تھا جو ابلیس نے خدا کو دیا ۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ مہلت جو آپ نے مجھے قیامت تک کے لیے دی ہے اس سے فائدہ اُٹھا کر میں یہ ثابت کرنے کے لیے پورا زور صرف کر دوں گا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو آپ نے میرے مقابلہ میں اسے عطا کی ہے ۔ میں آپ کو دکھا دوں گا کہ یہ کیسے ناشکرا ، کیسا نمک حرام اور کیسا احسان فراموش ہے ۔ یہ مہلت جو شیطان نے مانگی اور خدا نے اسے عطا فرمادی ، اس سے مراد محض وقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کام کا موقع دینا بھی ہے جو وہ کرنا چاہتا تھا ۔ یعنی اس کا مطالبہ یہ تھا کہ مجھے انسان کو بہکانے اور اس کی کمزوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اس کی نااہلی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے ، اور یہ موقع اللہ تعالیٰ نے اسے دے دیا ۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیات ٦١ ۔ ٦۵ میں اس کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اختیار دے دیا کہ آدم اور اس کی اولاد کو راہ راست سے ہٹا دینے کے لیے جو چالیں وہ چلتا چاہتا ہے ، چلے ۔ ان چال بازیوں سے اسے روکا نہیں جائے گا بلکہ وہ سب راہیں کُھلی رہیں گی جن سے وہ انسان کو فتنہ میں ڈالنا چاہے گا ۔ لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی کہ اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِم سُلْطَانٌ ، یعنی میرے بندوں پر تجھے کوئی اقتدار نہ ہوگا ۔ تو صرف اس بات کا مجاز ہوگا کہ ان کو غلط فہمیوں میں ڈالے ، جھوٹی امیدیں دلائے ، بدی اور گمراہی کو ان کے سامنے خوش نما بنا کر پیش کرے ، لذتوں اور فائدوں کے سبز باغ دکھا کر ان کو غلط راستوں کی طرف دعوت دے ۔ مگر یہ طاقت تجھے نہیں دی جائے گی کہ انہیں ہاتھ پکڑ کر زبردستی اپنے راستے پر کھینچ لے جائے اور اگر وہ خود راہِ راست پر چلنا چاہیں تو انہیں نہ چلنے دے ۔ یہی بات سورہ ابراہیم آیت ۲۲ میں فرمائی ہے کہ قیامت میں عدالتِ الہٰی سے فیصلہ صادر ہو جانے کے بعد شیطان اپنے پیرو انسانوں سے کہےگا وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّن سُلْطَانٍ اِلَّا ٓاَنْ دَعَوْتَکُمْ فَاسْتَجِبْتُم لِی ْفَلَا تَلُوْ مُوْنِی وَلُوْمُوْٓااَنْفُسَکُمْ ، یعنی میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں کہ میں نے اپنی پیروی پر تمہیں مجبور کیا ہو ، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ تمہیں اپنی راہ پر بلایا اور تم نے میری دعوت قبول کر لی ۔ لہذٰا اب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ اور جو شیطان نے خدا پر الزام عائد کیا ہے کہ تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اپنی معصیّت کی ذمہ داری خدا پر ڈالتا ہے ۔ اس کو شکایت ہے کہ آدم کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تو نے مجھے فتنے میں ڈالا اور میرے نفس کے تکبر کو ٹھیس لگا کر مجھے اس حالت میں مبتلا کر دیا کہ میں نے تیری نافرمانی کی ۔ گویا اس احمق کی خواہش یہ تھی کہ اس کے نفس کی چوری پکڑی نہ جاتی بلکہ جس پندارِ غلط اور جس سرکشی کو اس نے اپنے اندر چھپا رکھا تھا اس پر پردہ ہی پڑا رہنے دیا جاتا ۔ یہ ایک کُھلی ہوئی سفیہانہ بات تھی جس کا جواب دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سرے سے اس کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیا ۔