Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
فَدَلّٰٮهُمَا بِغُرُوۡرٍ‌ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتۡ لَهُمَا سَوۡءٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخۡصِفٰنِ عَلَيۡهِمَا مِنۡ وَّرَقِ الۡجَـنَّةِ‌ ؕ وَنَادٰٮهُمَا رَبُّهُمَاۤ اَلَمۡ اَنۡهَكُمَا عَنۡ تِلۡكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ لَّـكُمَاۤ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ لَـكُمَا عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿22﴾
سو ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہوگئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کر چکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شیطان تمہارا صریح دشمن ہے ،
فدلىهما بغرور فلما ذاقا الشجرة بدت لهما سواتهما و طفقا يخصفن عليهما من ورق الجنة و نادىهما ربهما الم انهكما عن تلكما الشجرة و اقل لكما ان الشيطن لكما عدو مبين
So he made them fall, through deception. And when they tasted of the tree, their private parts became apparent to them, and they began to fasten together over themselves from the leaves of Paradise. And their Lord called to them, "Did I not forbid you from that tree and tell you that Satan is to you a clear enemy?"
So inn dono ko fareb say neechay le aaya pus inn dono ney jab darakht ko chakha dono ki sharamgahen aik doosray kay roo baroo bey parda hogayen aur dono apney upper jannat kay pattay jor jor ker rakhne lagay aur inn kay rab ney inn ko pukara mein tum dono ko iss darakht say mana nahi ker chuka tha aur yeh na keh chuka kay shetan tumhara sareeh dushman hai?
اس طرح اس نے دونوں کو دھوکا دے کر نیچے اتار ہی لیا ۔ ( ٨ ) چنانچہ جب دونوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان دونوں کی شرم کی جگہیں ایک دوسرے پر کھل گئیں ، اور وہ جنت کے کچھ پتے جوڑ جوڑ کر اپنے بدن پر چپکانے لگے ۔ ( ٩ ) اور ان کے پروردگار نے انہیں آواز دی کہ : کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت سے روکا نہیں تھا ، اور تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے ؟
تو اتار لایا انہیں فریب سے ( ف۲۹ ) پھر جب انہوں نے وہ پیڑ چکھا ان پر ان کی شرم کی چیزیں کھل گئیں ( ف۳۰ ) اور اپنے بدن پر جنت کے پتے چپٹانے لگے ، اور انہیں ان کے رب نے فرمایا کیا میں نے تمہیں اس پیڑ سے منع نہ کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے ،
اس طرح دھوکا دے کر وہ ان دونوں کو رفتہ رفتہ اپنے ڈھب پر لے آیا ۔ آخرِکار جب انہوں نے اس درخت کا مزا چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور وہ اپنے جسموں کو جنّت کے پتّوں سے ڈھانکنے لگے ۔ تب ان کے رب نے انہیں پکارا کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہ روکا تھا اور نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟
پس وہ فریب کے ذریعے دونوں کو ( درخت کا پھل کھانے تک ) اتار لایا ، سو جب دونوں نے درخت ( کے پھل ) کو چکھ لیا تو دونوں کی شرم گاہیں ان کے لئے ظاہر ہوگئیں اور دونوں اپنے ( بدن کے ) اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے ، تو ان کے رب نے انہیں ندا فرمائی کہ کیا میں نے تم دونوں کو اس درخت ( کے قریب جانے ) سے روکا نہ تھا اور تم سے یہ ( نہ ) فرمایا تھا کہ بیشک شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے
لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے ، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی ۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی ، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے ، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے ، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے ، شرمسار ہوں ، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں ، درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی ، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے ، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے ، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں ۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی ۔ چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا ، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے ، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی ، کھیتی کا کام بتایا گیا ، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے ، وہ آگے بڑھے ، بالیں نکلیں ، دانے پکے ، پھر توڑے گئے ، پھر پیسے آ گئے ، آٹا گندھا ، پھر روٹی تیار ہوئی ، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے ، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے ، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے ، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے ، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی ۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی ۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی ، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا ، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی ، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی ۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ!