Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
قَالَ اهۡبِطُوۡا بَعۡضُكُمۡ لِبَـعۡضٍ عَدُوٌّ‌ ۚ وَلَـكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ‏ ﴿24﴾
حق تعالٰی نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک ۔
قال اهبطوا بعضكم لبعض عدو و لكم في الارض مستقر و متاع الى حين
[ Allah ] said, "Descend, being to one another enemies. And for you on the earth is a place of settlement and enjoyment for a time."
Haq Taalaa ney farmaya kay neechay aisi halat mein aajao kay tum bahum aik doosray kay dushman hogay aur tumharay wastay zamin mein rehney ki jagah hai aur nafa hasil kerna hai aik waqt tak.
اللہ نے ( آدم ، ان کی بیوی اور ابلیس سے ) فرمایا : اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے لیے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا ( طے کردیا گیا ) ہے ۔
فرمایا اترو ( ف۳۱ ) تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے اور تمہیں زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور برتنا ہے ،
فرمایا ، اتر جاؤ 14 ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اور تمہارے لیے ایک خاص مدّت تک زمین ہی میں جائے قرار اور سامانِ زیست ہے ۔
ارشادِ باری ہوا: تم ( سب ) نیچے اتر جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں ، اور تمہارے لئے زمین میں معیّن مدت تک جائے سکونت اور متاعِ حیات ( مقرر کر دیئے گئے ہیں گویا تمہیں زمین میں قیام و معاش کے دو بنیادی حق دے کر اتارا جا رہا ہے ، اس پر اپنا نظامِ زندگی استوار کرنا )
سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدم ، حضرت حوا ، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے ۔ بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدم ہیں اور شیطان ملعون ۔ جیسے سورۃ طہ میں ہے آیت ( اھبطا منھا جمیعا ) حوا حضرت آدم کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے ، شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن میں یا حدیث میں ضرور ہوتا ، کہدیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے ۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ) پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی ، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے ، پھر بدلہ دیئے جائیں گے ۔