Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهِمُ الۡاَنۡهٰرُ‌ۚ وَقَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ‌ ؕ وَنُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡكُمُ الۡجَـنَّةُ اُوۡرِثۡتُمُوۡهَا بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿43﴾
اور جو کچھ ان کے دلوں میں ( کینہ ) تھا ہم اس کو دور کر دیں گے ان کے نیچے نہریں جاری ہونگی ۔ اور وہ لوگ کہیں گے کہ اللہ کا ( لاکھ لاکھ ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالٰی ہم کو نہ پہنچاتا واقعی ہمارے رب کے پیغمبر سچی باتیں لے کر آئے تھے ۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ اس جنت کے تم وارث بنائے گئے ہو اپنے اعمال کے بدلے ۔
و نزعنا ما في صدورهم من غل تجري من تحتهم الانهر و قالوا الحمد لله الذي هدىنا لهذا و ما كنا لنهتدي لو لا ان هدىنا الله لقد جاءت رسل ربنا بالحق و نودوا ان تلكم الجنة اورثتموها بما كنتم تعملون
And We will have removed whatever is within their breasts of resentment, [while] flowing beneath them are rivers. And they will say, "Praise to Allah , who has guided us to this; and we would never have been guided if Allah had not guided us. Certainly the messengers of our Lord had come with the truth." And they will be called, "This is Paradise, which you have been made to inherit for what you used to do."
Aur jo kuch inn kay dilon mein ( keena ) tha hum uss ko door ker den gay. Inn kay neechay nehren jari hongi. Aur woh log kahen gay kay Allah ka ( lakh lakh ) shukar hai jiss ney hum ko iss moqam tak phonchaya aur humari kabhi rasaee na hoti agar Allah Taalaa hum ko na pehchanta. Waqaee humaray rab kay payghumbar sachi baaten ley ker aaye thay. Aur inn say pukar ker kaha jayega iss jannata kay tum waris banaye gaye ho apney aemaal kay badlay.
اور ان کے سینوں میں ( ایک دوسرے سے دنیا میں ) جو کوئی رنجش رہی ہوگی ، اسے ہم نکال باہر کریں گے ، ( ٢٤ ) ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی ، اور وہ کہیں گے : تمام تر شکر اللہ کا ہے ، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا ، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے ۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے ۔ اور ان سے پکار کر کہا جائے گا کہ : لوگو ! یہ ہے جنت ! تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کی بنا پر تمہیں اس کا وارث بنا دیا گیا ہے ۔
اور ہم نے ان کے سینوں سے کینے کھینچ لیے ( ف۷۱ ) ان کے نیچے نہریں بہیں گی اور کہیں گے ( ف۷۲ ) سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی ( ف۷۳ ) اور ہم راہ نہ پاتے اگر اللہ ہمیں راہ نہ دکھاتا ، بیشک ہمارے رب کے رسول حق لائے ( ف۷٤ ) اور ندا ہوئی کہ یہ جنت تمہیں میراث ملی ( ف۷۵ ) صلہ تمہارے اعمال کا ،
ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے ۔ 32 ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ، اور وہ کہیں گے کہ تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں راستہ دکھایا ، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا ، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے ۔ اس وقت نِدا آئے گی کہ یہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں ان کے اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے ۔ 33
اور ہم وہ ( رنجش و ) کینہ جو ان کے سینوں میں ( دنیا کے اندر ایک دوسرے کے لئے ) تھا نکال ( کے دور کر ) دیں گے ان کے ( محلوں کے ) نیچے نہریں جاری ہوں گی ، اور وہ کہیں گے: سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا ، اور ہم ( اس مقام تک کبھی ) راہ نہ پا سکتے تھے اگر اﷲ ہمیں ہدایت نہ فرماتا ، بیشک ہمارے رب کے رسول حق ( کا پیغام ) لائے تھے ، اور ( اس دن ) ندا دی جائے گی کہ تم لوگ اس جنت کے وارث بنا دیئے گئے ہو ان ( نیک ) اعمال کے باعث جو تم انجام دیتے تھے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :32 یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں ، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی ۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے ۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سےجنت میں داخل ہوں گے ۔ ان میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑا تھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی ، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے ۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمان رضی اللہ عنہ اور طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی صفائی کراوے گا ۔ اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :33 یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا ۔ اہل جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد و ثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہے ورنہ ہم کس لائق تھے ۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کے صلہ میں پایا ہے ، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے ، تمہارے کام کی مزدوری ہے ، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے ۔ پھر یہ مضمون اس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی ۔ درحقیقت یہی معاملہ دنیا میں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے ۔ ظالموں کو جو نعمت دنیا میں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے ، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں ، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنے ہی زیادہ متواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسن عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشنے ہی جائیں گے ۔ بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتے ہیں ، اپنے عمل کے بجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچھ دینا ہی نہ نکل آئے ۔ بخاری و مسلم دونوں میں روایت موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اعلمواان احدکم لن یدخلہ عملہ الجنة ۔ خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمدنی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ، اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے ۔