Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاِلٰى ثَمُوۡدَ اَخَاهُمۡ صٰلِحًا‌ ۘ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوۡا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ‌ ؕ قَدۡ جَآءَتۡكُمۡ بَيِّنَةٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً‌ فَذَرُوۡهَا تَاۡكُلۡ فِىۡۤ اَرۡضِ اللّٰهِ‌ وَلَا تَمَسُّوۡهَا بِسُوۡٓءٍ فَيَاۡخُذَكُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿73﴾
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح ( علیہ السلام ) کو بھیجا انہوں نے فرمایا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ۔ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل آچکی ہے یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ تعالٰی کی زمین میں کھاتی پھرے اور اسکو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کہ کہیں تم کو دردناک عذاب آ پکڑے ۔
و الى ثمود اخاهم صلحا قال يقوم اعبدوا الله ما لكم من اله غيره قد جاءتكم بينة من ربكم هذه ناقة الله لكم اية فذروها تاكل في ارض الله و لا تمسوها بسوء فياخذكم عذاب اليم
And to the Thamud [We sent] their brother Salih. He said, "O my people, worship Allah ; you have no deity other than Him. There has come to you clear evidence from your Lord. This is the she-camel of Allah [sent] to you as a sign. So leave her to eat within Allah 's land and do not touch her with harm, lest there seize you a painful punishment.
Aur hum ney samood ki taraf unn kay bhai saleh ( alh-e-salam ) ko bheja. Unhon ney farmaya aey meri qom! Tum Allah ki ibadat kero uss kay siwa koi tumhara mabood nahi. Tumharay pass tumharay perwerdigar ki taraf say aik wazeh daleel aa chuki hai. Yeh oontni hai Allah ki jo tumharay liye daleel hai so iss ko chor do kay Allah Taalaa ki zamin mein khati phiray aur issko buraee kay sath haath bhi na lagana kay kahin tum ko dard naak azab aa pakray.
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ ( ٣٩ ) انہوں نے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو ۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے ۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آچکی ہے ۔ یہ اللہ کی اونٹنی ہے جو تمہارے لیے ایک نشانی بن کر آئی ہے ۔ اس لیے اس کو آزاد چھوڑ دو کہ وہ اللہ کی زمین میں چرتی پھرے اور اسے کسی برائی کے ارادے سے چھونا بھی نہیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہیں ایک دکھ دینے والا عذاب آپکڑے ۔
اور ثمود کی طرف ( ف۱۳٦ ) ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ( ف۱۳۷ ) روشن دلیل آئی ( ف۱۳۸ ) یہ اللہ کا ناقہ ہے ( ف۱۳۹ ) تمہارے لیے نشانی ، تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگاؤ ( ف۱٤۰ ) کہ تمہیں درد ناک عذاب آئے گا ،
اور ثمود 57 کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ اس نے کہا اے برادرانِ قوم ، اللہ کی بندگی کرو ، اس کے سِوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے ۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آگئی ہے ۔ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے 58 ، لہٰذا اِسے چھوڑدو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے ۔ اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک دردناک عذاب تمہیں آلے گا ۔
اور ( قومِ ) ثمود کی طرف ان کے ( قومی ) بھائی صالح ( علیہ السلام ) کو ( بھیجا ) ، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے ۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے ، سو تم اسے ( آزاد ) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی ( کے ارادے ) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گا
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :57 یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے ۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد عام تھے ۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے ۔ اسیریا کے کتبات اور یونان ، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں ۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے ، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی ۔ اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی اَلحَجِر کے نام سے موسوم ہے ۔ موجودہ زمانہ میں مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں ۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا ۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی ۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب بصیرت انسان کو حاصل کرنا چاہیے ۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا ، باقی کنووں کا پانی نہ پینا ۔ ایک پہاڑی درے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اُونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی ۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے ان کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا ، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ ، یہ سیرگاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :58 ظاہر عبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے فقرے میں اللہ کی جس کھلی دلیل کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہی اُونٹنی ہے جسے اس دوسرے فقرے میں”نشانی“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سورہ شعراء آیات۵٤ تا ١۵۸ میں تصریح ہے کہ ثمود والوں نے خود ایک ایسی نشانی کا حضرت صالح سے مطالبہ کیا تھا جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر کھلی دلیل ہو ، اور اسی جواب میں حضرت صالح نے اونٹنی کو پیش کیا تھا ۔ اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اُونٹنی کا ظہور معجزے کے طور پر ہوا تھا اور یہ اسی نوعیت کے معجزات میں سے تھا جو بعض انبیاء نے اپنی نبوت کے ثبوت میں منکرین کے مطالبہ پر پیش کیے ہیں ۔ نیز یہ بات بھی اس اونٹنی کی معجزانہ پیدائش پر دلیل ہے کہ حضرت صالح نے اسے پیش کرکے منکرین کو دھمکی دی کہ بس اب اس اونٹنی کی جان کے ساتھ تمہاری زندگی معلق ہے ۔ یہ آزادانہ تمہاری زمینوں میں چرتی پھرے گی ۔ ایک دن یہ اکیلی پانی پئیے گی اور دوسرے دن پوری قوم کے جانور پئیں گے ۔ اور اگر تم نے اسے پاتھ لگایا تو یکایک تم پر خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا ۔ ظاہر ہے کہ اس شان کے ساتھ وہی چیز پیش کی جاسکتی تھی جس کا غیر معمولی ہونا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو ۔ پھر یہ بات کہ ایک کافی مدّت تک یہ لوگ اس کے آزادانہ چرنے پھرنے کو اور اس بات کو کہ اک دن تنہا وہ پانی پیئے اور دوسرے دن ان سب کے جانور پئیں ، بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے اور آخر بڑے مشوروں اور سازشوں کے بعد انہوں نے اسے قتل کیا ، درآں حالیکہ حضرت صالح کے پاس کوئی طاقت نہ تھی جس کا انہیں کوئی خوف ہوتا ، اس حقیقت پر مزید دلیل ہے کہ وہ لوگ اس اُونٹنی سے خوف زدہ تھے اور جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی زور ہے جس کے بل پر وہ ہمارے درمیان دندناتی پھرتی ہے ۔ مگر قرآن اس امر کی کوئی تصریح نہیں کرتا کہ یہ اُونٹنی کیسی تھی اور کس طرح وجود میں آئی ۔ کسی حدیث صحیح میں بھی اس کے معجزے کے طور پر پیدا ہونے کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ہے ۔ اس لیے ان روایات کو تسلیم کرنا کچھ ضروری نہیں جو مفسرین نے اس کی کیفیت پیدائش کے متعلق نقل کی ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ وہ کسی نہ کسی طور پر معجزے کی حیثیت رکھتی تھی ، قرآن سے ثابت ہے ۔
ثمود کی قوم اور اس کا عبرت ناک انجام علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح ۔ یہ بھائی تھا جد بس بن عامر کا ۔ اسی طرح قبیلہ طسم یہ سب خالص عرب تھے ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے پہلے ثمودی عادیوں کے بعد ہوئے ہیں ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القری اور اس کے اردگرد مشہور ہیں ۔ سنہ ٩ھ میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گذرے تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے میدان میں اترے لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں ۔ پھر فرمایا یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گذرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آ جائیں جو ان پر آئے تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے ۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کہا حدیث ( الصلوۃ جامعتہ ) جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الٰہی نازل ہوا ۔ راوی حدیث ابو کبشہ فرماتے ہیں رسول اللہ کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ۔ میں نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھے آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتا رہا ہوں تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتا رہا ہے جو گذر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں یاد رکھو ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کر سکیں گے ۔ حضرت ابو کبشہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معجزے نہ طلب کرو دیکھو قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتاب کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے سب کے سب ڈھیر ہوگئے ۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا لوگوں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا ؟ فرمایا ابو غال یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا ۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ثمودی قبیلے کی طرف سے ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا ۔ تمام نبیوں کی طرح آپ نے بھی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید الٰہی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، صرف میری ہی عبادت کرو اور ارشاد ہے ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو ۔ حضرت صالح فرماتے ہیں لوگوں تمہارے پاس دلیل الٰہی آچکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے ۔ ان لوگوں نے حضرت صالح سے یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کاتبہ تھا اس سے آپ ایک اونٹنی نکلایں جو گابھن ہو ( دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو ) حضرت صالح نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو تم ایمان قبول کر لوگے؟ انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی دعا کی ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی اس کے بیچ سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی ۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی ۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کیلئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن ہمر بن جلمس وغیرہ نے انہیں روک دیا ۔ حضرت جندع کا بھتیجا شہاب نامی تھا یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن انہی بدبختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مومن ثمودی مہوش بن غنمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی قریب تھا کہ وہ مشرف باسلام ہو جائے اور اگر ہو جاتا تو اس کی عزت سیوا ہو جاتی مگر بد بختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا ۔ اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا ایک مدت تک دونوں ان میں رہے ۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی ۔ اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَةٌۢ بَيْنَهُمْ ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ 28؀ ) 54- القمر:28 ) ، اور آیت میں ہے ( قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ١٥٥؀ۚ ) 26- الشعراء:155 ) یہ ہے اونٹنی اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں ۔ یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی ایک راہ جاتی دوسری راہ آتی یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی جس راہ سے گذرتی سب جانور ادھر ادھر ہو جاتے ۔ کچھ زمانہ گذرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو ۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے آیت ( فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا ۱ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا 14۝۽ ) 91- الشمس:14 ) ، قوم صالح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کر دیا ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لئے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے ۔ امام ابن جریر وغیرہ کا فرمان ہے کہ اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت عنم بن مجلز جو ایک بڑھیا کافرہ تھی اور حضرت صالح سے بڑی دشمنی رکھتی تھی اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار ۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا ۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدقہ بنت محیا بن زہیر بن مختار تھا ۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی اس کے خاوند مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اس سرکش عورت نے ان کو چھوڑ دیا ۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہو جائے اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کر دے ، صدقہ نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آ جاؤں گی اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کر دیا ، اس پر اس نے مصدع بن مہرج بن محیا کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا ۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتوں تھا اس برائی پر آمادہ ہو گیا ۔ ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے اسے میں تجھے دے دو گی اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال ۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہو گیا یہ تھا بھی زنا کاری کا بچہ ، سالف کی اولاد میں نہ تھا ، جیسان نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زنا کاری کی تھی اسی سے یہ پیدا ہوا تھا اب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا چنانچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہوگئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے جیسے قران کریم میں ہے آیت ( وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ 48؀ ) 27- النمل:48 ) اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا سراسر فسادی ہی تھے ۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہوگئے اور اونٹنی کے واپس آنے کا راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ گئے جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوت ہو گیا اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا اس نے کہا قدار کیا دیکھتے ہو اٹھو اور اس کا کام تمام کر دو ۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکلالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہو گیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مر گئی اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور تین مربتہ بلبلایا ۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی پھر جس چٹان سے نکلا تھا اسی میں سما گیا ۔ یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے دیکھا کہ اونٹنی بےجان پڑی ہے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے ، ہوا بھی یہی ۔ بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا اس لئے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کر لیا کہ آج شام کو صالح کو بھی مار ڈالو اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے؟ اور اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آؤ روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہو جائیں ۔ چنانچہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہ تیغ کرو اور صاف انکار کر دو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بےخبر رہے اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا ؟ رات کو یہ اپنی بد نیتی سے حضرت صالح کے گھر کی طرف چلے آپ کا گھر پہاڑی کی بلندی پر تھا ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا ۔ ان کا تو یہ حشر ہوا ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہوگئے اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ان کے منہ سیاہ ہوگئے تین دن جب گذر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک دہشت انگیز چنگھاڑنے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہو گیا ، مردوں سے مکانات ، بازار ، گلی ، کوچے بھر گئے ۔ مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہوگئے شان رب دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لئے ایک کافرہ عورت بچا دی گئی ، یہ بھی بڑی خبیثہ تھی حضرت صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی اسکی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا ادھر اس کے پاؤں کھل گئے اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا ۔ ابھی پوری پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الٰہی آ پڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی ۔ ہاں ابو دغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا ثمودیوں میں سے سوائے حضرت صالح اور انکے مومن صحابہ کے اور کوئی بھی نہ بچا ، ابو رغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہو چکا ہے قبیلہ ثقیف جو طائف میں ہے مذکور ہے کہ یہ اسی کی نسل سے ہیں ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب گذرے تو فرمایا جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ ابو دغال کی قبر ہے ۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا اپنی قوم کے عذاب کے وقت یہ حرم میں تھا اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی ۔ چنانچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے ، یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کر دی گئی تھی یہی نشان اس کی قبر کا ہے اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چنانچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکال لی ۔ ابو داؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے لیکن میں کہتا ہوں اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بحیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے اور بقول حضرت امام یحییٰ بن معین سوائے اسماعیل بن ابی امیہ کے اسے اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطاء نہ ہو یہ عبداللہ بن عمرو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے ۔ میرے استاد شیخ ابو الحجاج اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے ۔ واللہ اعلم ۔