Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
قُلۡ مَنۡ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِيۡلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلۡبِكَ بِاِذۡنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَهُدًى وَّبُشۡرٰى لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿97﴾
۔ ( اے نبی! ) آپ کہہ دیجئے کہ جو جبرائیل کا دشمن ہو جس نے آپ کے دل پر پیغام باری تعالٰی اتارا ہے جو پیغام ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے ۔
قل من كان عدوا لجبريل فانه نزله على قلبك باذن الله مصدقا لما بين يديه و هدى و بشرى للمؤمنين
Say, "Whoever is an enemy to Gabriel - it is [none but] he who has brought the Qur'an down upon your heart, [O Muhammad], by permission of Allah , confirming that which was before it and as guidance and good tidings for the believers."
( aey nabi! ) aap keh dijiye kay jo jibraeel ka dushman ho jiss ney aap kay dil per paygham-e-baari taalaa utaara hai jo paygham inn kay pass ki kitab ki tasdeeq kerney wala aur mominon ko hidayat aur khushkhabri denay wala hai.
۔ ( اے پیغمبر ) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے ( ٦٥ ) تو ( ہوا کرے ) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے ، اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے ۔
تم فرمادو جو کوئی جبریل کا دشمن ہو ( ف۱٦۹ ) تو اس ( جبریل ) نے تو تمہارے دل پر اللہ کے حکم سے یہ قرآن اتارا اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتا اور ہدایت و بشارت مسلمانوں کو ۔ ( ف۱۷۰ )
ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو 100 ، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے101 ، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے 102 اور ایمان لانے والوں کے لیےہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے ۔ 103
آپ فرما دیں: جو شخص جبریل کا دشمن ہے ( وہ ظلم کر رہا ہے ) کیونکہ اس نے ( تو ) اس ( قرآن ) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے ( جو ) اپنے سے پہلے ( کی کتابوں ) کی تصدیق کرنے والا ہے اور مؤمنوں کے لئے ( سراسر ) ہدایت اور خوشخبری ہے
سورہ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :100 یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے ، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے ۔ وہ رحمت کا نہیں ، عذاب کا فرشتہ ہے ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :101 یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :102 مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے ۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :103 اِس میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو ، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے ۔ تم لڑ رہے ہو اس صحیح رہنمائی کے خلاف ، جسے اگر سیدھی طرح مان لو ، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو ۔
خصومت جبرائیل علیہ السلام موجب کفر و عصیان امام جعفر طبری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ جب یہودیوں نے حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن اور حضرت میکائیل کو اپنا دوست بتایا تھا اس وقت ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی لیکن بعض کہتے ہیں کہ امر نبوت کے بارے میں جو گفتگو ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی تھی اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ بعض کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ سے ان کا جو مناظرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہوا تھا اس میں انہوں نے یہ کہا تھا ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہودیوں کی ایک جماعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ ہم آپ سے چند سوال کرتے ہیں جن کے صحیح جواب نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اگر آپ سچے نبی ہیں تو ان کے جوابات دیجئے آپ نے فرمایا بہتر ہے جو چاہو پوچھو مگر عہد کرو کہ اگر میں ٹھیک ٹھیک جواب دوں گا تو تم میری نبوت کا اقرار کر لو گے اور میری فرمانبرداری کے پابند ہو جاؤ گے انہوں نے آپ سے وعدہ کیا اور عہد دیا ۔ اس کے بعد آپ نے حضرت یعقوب کی طرح اللہ جل شانہ کی شہادت کے ساتھ ان سے پختہ وعدہ لے کر انہیں سوال کرنے کی اجازت دی ، انہوں نے کہا پہلے تو یہ بتائے کہ توراۃ نازل ہونے سے پہلے حضرت اسرائیل علیہ السلام نے اپنے نفس پر کس چیز کو حرام کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا جب حضرت یعقوب علیہ السلام عرق السناء کی بیماری میں سخت بیمار ہوئے تو نذر مانی کہ اگر اللہ مجھے اس مرض سے شفا دے تو میں اپنی کھانے کے سب سے زیادہ مرغوب چیز اور سب سے زیادہ محبوب چیز پینے کی چھوڑ دوں گا جب تندرست ہو گئے تو اونٹ کا گوشت کھانا اور اونٹنی کا دودھ پینا جو آپ کو پسند خاطر تھا چھوڑ دیا ، تمہیں اللہ کی قسم جس نے حضرت موسیٰ پر تورات اتاری بتاؤ یہ سچ ہے؟ ان سب نے قسم کھا کر کہا کہ ہاں حضور سچ ہے بجا ارشاد ہوا اچھا اب ہم پوچھتے ہیں کہ عورت مرد کے پانی کی کیا کیفیت ہے؟ اور کیوں کبھی لڑکا پیدا ہوتا ہے اور کبھی لڑکی؟ آپ نے فرمایا سنو مرد کا پانی گاڑھا اور سفید ہوتا ہے اور عورت کا پانی پتلا اور زردی مائل ہوتا ہے جو بھی غالب آ جائے اسی کے مطابق پیدائش ہوتی ہے اور شبیہ بھی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد نرینہ ہوتی ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آ جائے تو حکم الٰہی سے اولاد لڑکی ہوتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں سچ بتاؤ میرا جواب صحیح ہے؟ سب نے قسم کھا کر کہا بیشک آپ نے بجا ارشاد فرمایا آپ نے ان دو باتوں پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنایا ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ فرمائیے کہ تورات میں جس نبی امی کی خبر ہے اس کی خاص نشانی کیا ہے؟ اور اس کے پاس کونسا فرشتہ وحی لے کر آتا ہے؟ آپ نے فرمایا کس خاص نشانی یہ ہے کہ اس کی آنکھیں جب سوئی ہوئی ہوں اس وقت میں اس کا دل جاگتا رہتا ہے تمہیں اس رب کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کو توراۃ دی بتاؤ تو میں نے ٹھیک جواب دیا ؟ سب نے قسم کھا کر کہا آپ نے بالکل صحیح جواب دیا ۔ اب ہمارے اس سوال کی دوسری شق کا جواب بھی عنایت فرما دیجئے اسی پر بحث کا خاتمہ ہے ۔ آپ نے فرمایا میرا ولی جبرائیل ہے وہی میرے پاس وحی لاتا ہے اور وحی تمام انبیاء کرام کے پاس پیغام باری تعالیٰ لاتا رہا ۔ سچ کہو اور قسم کھا کر کہو کہ میرا یہ جواب بھی درست ہے؟ انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ جواب تو درست ہے لیکن چونکہ جبرائیل ہمارا دشمن ہے وہ سختی اور خون ریزی وغیرہ لے کر آتا رہتا ہے اس لئے ہم اس کی نہیں مانیں گے نہ آپ کی مانیں ہاں اگر آپ کے پاس حضرت میکائیل وحی لے کر آتے جو رحمت ، بارش ، پیداوار وغیرہ لے کر آتے ہیں اور ہمارے دوست ہیں تو ہم آپکی تابعداری اور تصدیق کرتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی سوال کیا تھا کہ رعد کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انہیں ادھر ادھر لے جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا یہ گرج کی آواز کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ اسی فرشتے کی آواز ہے ملاحظہ ہو مسند احمد وغیرہ ۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ میں تشریف لائے اس وقت حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باغ میں تھے اور یہودیت پر قائم تھے ۔ انہوں نے جب آپ کی آمد کی خبر سنی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائے کہ قیامت کی پہلی شرط کیا ہے؟ اور جنتیوں کا پہلا کھانا کیا ہے؟ اور کونسی چیز بچہ کو کبھی ماں کی طرف کھینچتی ہے اور کبھی باپ کی طرف ، آپ نے فرمایا ان تینوں سوالوں کے جواب ابھی ابھی جبرائیل نے مجھے بتلائے ہیں سنو ، حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا وہ تو ہمارا دشمن ہے ۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی پھر فرمایا پہلی نشانی قیامت کی ایک آگ ہے جو لوگوں کے پیچھے لگے گی اور انہیں مشرق سے مغرب کی طرف اکٹھا کر دے گی ۔ جنتیوں کی پہلی خوراک مچھلی کی کلیجی بطور ضیافت ہو گی ۔ جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت کر جاتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی سے سبق لے جاتا ہے تو لڑکی ہوتی ہے یہ جواب سنتے ہی حضرت عبداللہ مسلمان ہو گئے اور پکار اٹھے حدیث ( اشھدان لا الہ الا اللہ وانک رسولہ اللہ ) پھر کہنے لگے حضور یہودی بڑے بیوقوف لوگ ہیں ۔ اگر انہیں میرا اسلام لانا پہلے معلوم ہو جائے گا تو وہ مجھے کہیں گے آپ پہلے انہیں ذرا قائل کر لیجئے ۔ اس کے بعد آپ کے پاس جب یہودی آئے تو آپ نے ان سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام تم میں کیسے شخص ہیں؟ انہوں نے کہا بڑے بزرگ اور دانشور آدمی ہیں بزرگوں کی اولاد میں سے ہیں وہ تو ہمارے سردار ہیں اور سرداروں کی اولاد میں سے ہیں آپ نے فرمایا اچھا اگر وہ مسلمان ہو جائیں پھر تو تمہیں اسلام قبول کرنے میں کوئی تامل تو نہیں ہو گا ؟ کہنے لگے اعوذ باللہ اعوذ باللہ وہ مسلمان ہی کیوں ہونے لگے؟ حضرت عبداللہ جو اب تک چھپے ہوئے تھے باہر آ گئے اور زور سے کلمہ پڑھا ۔ تو تمام کے تمام شور مچانے لگے کہ یہ خود بھی برا ہے اس کے باپ دادا بھی برے تھے یہ بڑا نیچے درجہ کا آدمی ہے خاندانی کمینہ ہے ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کا مجھے ڈر تھا ۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جبر ، میک ، اسراف ، کے معنی عبد یعنی بندے کے ہیں اور ایل کے معنی اللہ کے ہیں تو جبرائیل وغیرہ کے معنی عبداللہ ہوئے بعض لوگوں نے اس کے معنی الٹ بھی کئے ہیں وہ کہتے ہیں ایل کے معنی عبد کے ہیں اور اس سے پہلے کے الفاظ اللہ کے نام ہیں ، جیسے عربی میں عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالملک عبدالقدوس عبدالسلام عبدالکافی عبدالجلیل وغیرہ لفظ عبد ہر جگہ باقی رہا اور اللہ کے نام بدلتے رہے اس طرح ایل ہر جگہ باقی ہے اور اللہ کے اسماء حسنہ بدلتے رہتے ہیں ۔ غیر عربی زبان میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف بعد میں ۔ اسی قاعدے کے مطابق ان ناموں میں بھی ہے جیسے جبرائیل میکائیل اسرافیل عزرائیل وغیرہ ۔ اب مفسرین کی دوسری جماعت کی دلیل سنئے جو لکھتے ہیں کہ یہ گفتگو جناب عمر سے ہوئی تھی شعبہ کہتے ہیں حضرت عمر روحاء میں آئے ۔ دیکھا کہ لوگ دوڑ بھاگ کر ایک پتھروں کے تودے کے پاس جا کر نماز ادا کر رہے ہیں پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جواب ملا کہ اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی ہے ، آپ بہت ناراض ہوئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاں کہیں نماز کا وقت آتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے پہلے چلے جایا کرتے تھے اب ان مقامات کو متبرک سمجھ کر خواہ مخواہ وہیں جا کر نماز ادا کرنا کس نے بتایا ؟ پھر آپ اور باتوں میں لگ گئے فرمانے لگے میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا اور یہ دیکھتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ کی اور توراۃ قرآن کو سچائی کی تصدیق کرتا ہے یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی ۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انہوں نے مجھ سے کہا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں ۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں لیکن تم یہ تو بتاؤ تمہیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ بر حق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور کو رسول نہیں مانتے؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے؟ انہوں نے کہا حضرت آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجئے ۔ اس بڑے پادری نے کہا سنئے جناب! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں میں نے کہا افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبرائیل ہیں جو نہایت سختی ، تنگی ، شدت ، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر حضرت میکائیل آتے جو رحمت و رافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں ماننے میں تامل نہ ہوتا ۔ میں نے کہا اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے؟ انہوں نے کہا ایک تو جناب باری کے داہنے بازو ہے اور دوسرا دوسری طرف میں نے کہا اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو ۔ اس کا دشمن اللہ بھی ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبرائیل کے دشمن سے میکائیل دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل کا دشمن جبرائیل کا دوست نہیں ہو سکتا ۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے ۔ واللہ مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف ۔ سنو جو شخص اللہ تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرائیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اس کافر کا اللہ وحدہ لاشریک بھی دشمن ہے اتنا کہہ کر میں چلا آیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا اے ابن خطاب مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے میں نے کہا حضور سنائیے ، آپ نے یہی آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے کہا حضور آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں ۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لئے حاضر خدمت ہوا تھا کہا آپ کو اطلاع کروں مگر میری آنے سے پہلے لطیف و خبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ مگر یہ روایت منقطع ہے سند متصل نہیں شعبی نے حضرت عمر کا زمانہ نہیں پایا ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اللہ کے امین فرشتے ہیں اللہ کے حکم سے آپ کے دل میں اللہ کی وحی پہنچانے پر مقرر ہیں ۔ وہ فرشتوں میں سے اللہ کے رسول ہیں کسی ایک رسول سے عداوت رکھنے والا سب رسولوں سے عداوت رکھنے والا ہوتا ہے جیسے ایک رسول پر ایمان سب رسولوں پر ایمان لانے کا نام ہے اور ایک رسول کے ساتھ کفر تمام نبیوں کے ساتھ کفر کرنے کے برابر ہے خود اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کے نہ ماننے والوں کو کافر فرمایا ہے ۔ فرماتا ہے آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيُرِيْدُوْنَ اَنْ يُّفَرِّقُوْا بَيْنَ اللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَكْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّيُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّتَّخِذُوْا بَيْنَ ذٰلِكَ سَبِيْلًا ) 4 ۔ النسآء:150 ) یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے دوسری آیت کے آخر تک پس ان آیتوں میں صراحتاً لوگوں کو کافر کہا جو کسی ایک رسول کو بھی نہ مانیں ۔ اسی طرح جبرائیل کا دشمن اللہ کا دشمن ہے کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں آتے قرآن فرماتا ہے ( وما نتنزل الا بامر ربک ) فرماتا ہے آیت ( وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ) 26 ۔ الشعرآء:192 ) یعنی ہم اللہ کے حکم کے سوا نہیں اترتے ہیں نازل کیا ہوا رب العالمین کا ہے جسے لے کر روح الامین آتے ہیں اور تیرے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تو لوگوں کو ہوشیار کر دے صحیح بخاری کی حدیث قدسی میں ہے میرے دوستوں سے دشمنی کرنے والا مجھ سے لڑائی کا اعلان کرنے والا ہے ۔ قرآن کریم کی یہ بھی ایک صفت ہے کہ وہ اپنے سے پہلے کے تمام ربانی کلام کی تصدیق کرتا ہے اور ایمانداروں کے دلوں کی ہدایت اور ان کے لئے جنت کی خوش خبری دیتا ہے جیسے فرمایا آیت ( قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ) 41 ۔ فصلت:44 ) فرمایا آیت ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا ) 17 ۔ الاسرآء:82 ) یعنی یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدیات و شفا ہے رسولوں میں انسانی رسول اور ملکی رسول سب شامل ہیں جیسے فرمایا آیت ( اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ ) 22 ۔ الحج:75 ) اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے اور انسانوں میں سے اپنے رسول چھانٹ لیتا ہے جبرائیل اور میکائیل بھی فرشتوں میں ہیں لیکن ان کا خصوصاً نام لیا تاکہ مسئلہ بالکل صاف ہو جائے اور یہ بھی جان لیں کہ ان میں سے ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن ہے بلکہ اللہ بھی اس کا دشمن ہے حضرت میکائیل بھی کبھی کبھی انبیاء کے پاس آتے رہے ہیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شروع شروع میں تھے لیکن اس کام پر مقرر حضرت جبرائیل ہیں جیسے حضرت میکائیل روئیدگی اور بارش وغیرہ پر اور جیسے حضرت اسرافیل صور پھونکنے پر ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جب تہجد کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تب یہ دعا پڑھتے ۔ دعا ( اللھم رب جبرائیل و بیکائیل و اسرافیل فاطر السموت والارض علم الغیب و الشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم ) اے اللہ اے جبرأایل میکائیل اسرافیل کے رب اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے اے ظاہر باطن کو جاننے والے اپنے بندوں کے اختلاف کا فیصلہ تو ہی کرتا ہے ، اے اللہ اختلافی امور میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہبری کر تو جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے ۔ لفظ جبرائیل وغیرہ کی تحقیق اور اس کے معانی پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ حضرت عبدالعزیز بن عمر فرماتے ہیں فرشتوں میں حضرت جبرائیل کا نام خادم اللہ ہے ۔ ابو سلیمان دارانی یہ سن کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمانے لگے یہ ایک روایت میری روایتوں کے ایک دفتر سے مجھے زیادہ محبوب ہے ۔ جبرائیل اور میکائیل کے لفظ میں بہت سارے لغت ہیں اور مختلف قرأت ہیں جن کے بیان کی مناسب جگہ کتب لغت ہیں ہم کتاب کے حجم کو بڑھانا نہیں چاہتے کیونکہ کسی معنی کی سمجھ یا کسی حکم کا مفاد ان پر موقف نہیں ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ ہمارا بھروسہ اور توکل اسی کی پاک ذات پر ہے ۔ آیت کے خاتمہ میں یہ نہیں فرمایا کہ اللہ بھی ان لوگوں کا دشمن ہے بلکہ فرمایا اللہ کافروں کا دشمن ہے ۔ اس میں ایسے لوگوں کا حکم بھی معلوم ہو گیا اسے عربی میں مضمر کی جگہ مظہر کہتے ہیں اور کلام عرب میں اکثر اس کی مثالیں شعروں میں بھی پائی جاتی ہیں گویا یوں کہا جاتا ہے کہ جس نے اللہ کے دوست سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی اور جو اللہ کا دشمن اللہ بھی اس کا دشمن اور جس کا دشمن خود اللہ قادر مطلق ہو جائے اس کے کفر و بربادی میں کیا شبہ رہ گیا ؟ صحیح بخاری کی حدیث پہلے گزر چکی کہ اللہ فرماتا ہے میرے دوستوں سے دشمنی رکھنے والے کو میں اعلان جنگ دیتا ہوں میں اپنے دوستوں کا بدلہ لے لیا کرتا ہوں اور حدیث میں ہی ہے جس کا دشمن میں ہو جاؤں وہ برباد ہو کر ہی رہتا ہے ۔