Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِهِمۡ مُّوۡسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ئِهٖ فَظَلَمُوۡا بِهَا‌ ۚ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُفۡسِدِيۡنَ‏ ﴿103﴾
پھر ان کے بعد ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام ) کو اپنے دلائل دے کر فرعون اور اس کے امرا کے پاس بھیجا ، مگر ان لوگوں نے ان کا بالکل حق ادا نہ کیا ۔ سو دیکھئے ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ۔
ثم بعثنا من بعدهم موسى بايتنا الى فرعون و ملاىه فظلموا بها فانظر كيف كان عاقبة المفسدين
Then We sent after them Moses with Our signs to Pharaoh and his establishment, but they were unjust toward them. So see how was the end of the corrupters.
Phir inn kay baad hum ney musa ( alh-e-salam ) ko apney dalaeel dey ker firaon aur uss kay umraa kay pass bheja magar unn logon ney inn kay bilkul haq ada na kiya. So dekhiye unn mufisdon ka kiya anjam hua?
پھر ہم نے ان سب کے بعد موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا ( ٥٢ ) تو انہوں نے ( بھی ) ان ( نشانیوں ) کی ظالمانہ ناقدری کی ۔ اب دیکھو کہ ان مفسدوں کا انجام کیسا ہوا ۔
انہوں نے ان نشانیوں پر زیادتی کی ( ف۲۰۲ ) تو دیکھو کیسا انجام ہوا مفسدوں کا ،
پھر ان قوموں کے بعد ﴿جن کا ذکر اوپر کیا گیا﴾ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس بھیجا 83 مگر انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا ، 84 پس دیکھو کہ ان مفسدوں کا کیا انجام ہوا ۔
پھر ہم نے ان کے بعد موسٰی ( علیہ السلام ) کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے ( درباری ) سرداروں کے پاس بھیجا تو انہوں نے ان ( دلائل اور معجزات ) کے ساتھ ظلم کیا ، پھر آپ دیکھئے کہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :83 اوپر جو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ اس کے بعد اب موسی و فرعون اور بنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش ، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کر دیے گئے ہیں ۔ کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کوشش کی گئی ہے کہ دعوت حق کے ابتدائی مرحلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تناسب بظاہر نظر آتا ہے ، اس سے دھوکا نہ کھاناچاہیے ۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سروسامان کے اس باطل کےخلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے ، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے ۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سے اس کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکریں حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے ان کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے ۔ جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے ۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر ان کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ نہ ہوں ۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت میں گرفتار بھی ہوتا ہے ۔ بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے برے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :84 نشانیوں کے ساتھ ظلم کیا ، یعنی ان کو نہ مانا اور انہیں جادو گری قرار دے کر ٹالنے کی کوشش کی ۔ جس طرح کسی ایسے شعر کو جو شعریت کا مکمل نمونہ ہو : تک بندی سے تعبیر کرنا اور اس کا مذاق اڑانا نہ صرف اس شعر کے ساتھ بلکہ نفس شاعری اور ذوق شعری کے ساتھ بھی ظلم ہے ، اسی طرح وہ نشانیاں جو خود اپنے من جانب اللہ ہونے پر صریح گواہی دے رہی ہوں اور جن کے متعلق کوئی صاحب عقل آدمی یہ گمان تک نہ کر سکتا ہو کہ سحر کے زور سے بھی ایسی نشانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں ، بلکہ جن کے متعلق خود فن سحر کے ماہرین نے شہادت دے دی ہو کہ وہ ان کے فن کی دسترس سے بالا تر ہیں ، ان کو سحر قرار دینا نہ صرف ان نشانیوں کے ساتھ بلکہ عقل سلیم اور صداقت کے ساتھ بھی ظلم عظیم ہے ۔
نابکار لوگوں کا تذکرہ ۔ انبیاء اور مومنین پر نظر کرم جن رسولون کا ذکر گذر چکا ہے یعنی نوح ، ہود ، صالح ، لوط ، شعیب صلوات اللہ و سلامہ علیھم وعلی سائر الانبیاء اجمعین کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کو اپنی دلیلیں عطا فرما کر بادشاہ مصر ( فرعون ) اور اس کی قوم کی طرف بھیجا ۔ لیکن انہوں نے بھی جھٹلایا اور ظلم و زیادتی کی اور صاف انکار کر دیا حالانکہ ان کے دلوں میں یقین گھر کر چکا تھا ۔ اب آپ دیکھ لو کہ اللہ کی راہ سے رکنے والوں اور اس کے رسولوں کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا ؟ وہ مع اپنی قوم کے ڈبو دیئے گئے اور پھر لطف یہ ہے کہ مومنوں کے سامنے بےکسی کی پکڑ میں پکڑ لئے گئے تاکہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور عبرت ہو ۔