Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَ قَالَ مُوۡسٰى يٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّىۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ‏ ﴿104﴾
اور موسیٰ ( علیہ السلام ) نے فرمایا کہ اے فرعون!میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر ہوں ۔
و قال موسى يفرعون اني رسول من رب العلمين
And Moses said, "O Pharaoh, I am a messenger from the Lord of the worlds
Aur musa ( alh-e-salam ) ney farmaya kay aey firaon! Mein rabbul aalameen ki taraf say payghumbr hun.
موسیٰ نے کہا تھا کہ : اے فرعون ! یقین جانو کہ میں رب العالمین کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہوں ۔
اور موسیٰ نے کہا اے فرعون! میں پروردگار عالم کا رسول ہوں ،
موسیٰ نے کہا اے فرعون 85 ، میں کائنات کے مالک کی طرف سے بھیجا گیا ہوں ،
اور موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: اے فرعون! بیشک میں تمام جہانوں کے رب کی طرف سے رسول ( آیا ) ہوں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :85 لفظ فرعون کے معنی ہیں”سورج دیوتا کی اولاد ۔ “ قدیم اہل مصر سورج کو ، جو ان کا مہا دیو یا ربِّ اعلیٰ تھا ، رغ کہتے تھے اور فرعون اسی کی طرف منسوب تھا ۔ اہل مصر کے اعتقاد کی رو سے کسی فرماں روا کی حاکمیت کے لیے اس کے سوا کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ رغ کا جسمانی مظہر اور اس کا ارضی نمائندہ ہو ، اسی لیے ہر شاہی خاندان جو مصر میں برسرِ اقتدار آتا تھا ، اپنے آپ کو سورج بنسی بنا کر پیش کرتا ، اور ہر فرماں روا جو تخت نشین ہوتا ، ”فرعون“ کا لقب اختیار کر کے باشندگانِ ملک کو یقین دلاتا کہ تمہارا ربِّ اعلیٰ یا مہادیو میں ہوں ۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی ۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور بالآخر غرق ہوا ۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن١۲۹۲ ء سے سن١۲۲۵ ءقبل مسیح تک رہا ۔ اور دوسرا فرعون جس کا یہاں ان آیات میں ذکر ہو رہا ہے ، منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہو چکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا ۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تاریخ وفات ١۲۷۲ قبل مسیح ہے ۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری ، اسرائیلی اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے ۔
موسیٰ علیہ السلام اور فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمیں کا رسول ہوں ۔ جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے ۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں ب اور علی یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں حقیقی کے معنی حریض کے ہیں ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنین کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں ۔ میں اپنی صداقت کی الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں ۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے ، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے ، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے ، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں ۔ فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعہ ہی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر ۔