Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَمَا تَـنۡقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنۡ اٰمَنَّا بِاٰيٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتۡنَا‌ ؕ رَبَّنَاۤ اَفۡرِغۡ عَلَيۡنَا صَبۡرًا وَّتَوَفَّنَا مُسۡلِمِيۡنَ‏ ﴿126﴾
اور تو نے ہم میں کون سا عیب دیکھا ہے بجز اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس آئے ۔ اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال ۔
و ما تنقم منا الا ان امنا بايت ربنا لما جاءتنا ربنا افرغ علينا صبرا و توفنا مسلمين
And you do not resent us except because we believed in the signs of our Lord when they came to us. Our Lord, pour upon us patience and let us die as Muslims [in submission to You]."
Aur tu ney hum mein konsa aib dekha hai ba-juz isskay kay hum apney rab per eman ley aaye jab woh humaray pass aaye. Aey humaray rab! Humaray upper sabar ka faizan farma aur humari jaan halat-e-islam per nikal.
اور تو اس کے سوا ہماری کس بات سے ناراض ہے کہ جب ہمارے مالک کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے؟ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر صبر کے پیمانے انڈیل دے ، اور ہمیں اس حالت میں موت دے کہ ہم تیرے تابع دار ہوں ۔
اور تجھے ہمارا کیا برا لگا یہی نہ کہ ہم اپنے رب کی نشانیوں پر ایمان لائے جب وہ ہمارے پاس آئیں ، اے رب ہمارے! ہم پر صبر انڈیل دے ( ف۲۲۳ ) اور ہمیں مسلمان اٹھا ( ف۲۲٤ )
تو جس بات پر ہم سے انتقام لینا چاہتا ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہمارے رب کی نشانیاں جب ہمارے سامنے آگئیں تو ہم نے انہیں مان لیا ۔ اے رب ، ہم پر صبر کا فیضان کر اور ہمیں دنیا سے اٹھا اس حال میں کہ ہم تیرے فرمانبردار ہوں ۔ 92 ؏ ١٤
اور تمہیں ہمارا کون سا عمل برا لگا ہے؟ صرف یہی کہ ہم اپنے رب کی ( سچی ) نشانیوں پر ایمان لے آئے ہیں جب وہ ہمارے پاس پہنچ گئیں ۔ اے ہمارے رب! تو ہم پر صبر کے سرچشمے کھول دے اور ہم کو ( ثابت قدمی سے ) مسلمان رہتے ہوئے ( دنیا سے ) اٹھالے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :92 فرعون نے پانسہ پلٹتے دیکھ کر آخری چال یہ چلی تھی کہ اس سارے معاملہ کو موسیٰ اور جادوگروں کی سازش قرار دیدے اور پھر جادوگروں کو جسمانی عذاب اور قتل کی دھمکی دے کر ان سے اپنے اس الزام کا اقبال کرالے ۔ لیکن یہ چال بھی اُلٹی پڑی ۔ جادوگروں نے اپنے آپ کو ہر سزا کے لیے پیش کر کے ثابت کر دیا کہ ان کا موسیٰ علیہ السلام کی صداقت پر ایمان لانا کسی سازش کا نہیں بلکہ سچے اعتراف حق کا نتیجہ تھا ۔ اب اس کے لیے کوئی چارہ کار اس کے سوا باقی نہ رہا کہ حق اور انصاف کا ڈھونگ جو وہ رچانا چاہتا تھا اسے چھوڑ کر صاف صاف ظلم و ستم شروع کردے ۔ اس مقام پر یہ بات بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ چند لمحوں کے اندر ایمان نے ان جادوگروں کی سیرت میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر دیا ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے انہی جادوگروں کی ونائت کا یہ حال تھا کہ اپنے دین آبائی کی نصرت و حمایت کے لیے گھروں سے چل کر آئے تھے اور فرعون سے پوچھ رہے تھے کہ اگر ہم نے اپنے مذہب کو موسیٰ کے حملہ سے بچالیا تو سرکار سے ہمیں انعام تو ملے گا نا ؟ یا اب جو نعمت ایمان نصیب ہوئی تو انہی کی حق پرستی اور اولواالعزمی اس حد کو پہنچ گئی کہ تھوڑی دیر پہلے جس بادشاہ کے آگے لالچ کے مارے بچھے جارہے تھے اب اس کی کبریائی اور اس کے جبروت کو ٹھوکر مار رہے ہیں اور ان بدترین سزاؤں کو بھگتنے کے لیے تیار ہیں جن کی دھمکی وہ دے رہا ہے مگر اس حق کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس کی صداقت ان پر کھل چکی ہے ۔