Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَقَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اَتَذَرُ مُوۡسٰى وَقَوۡمَهٗ لِيُفۡسِدُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَيَذَرَكَ وَاٰلِهَتَكَ‌ ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبۡنَآءَهُمۡ وَنَسۡتَحۡىٖ نِسَآءَهُمۡ‌ ۚ وَاِنَّا فَوۡقَهُمۡ قَاهِرُوۡنَ‏ ﴿127﴾
اور قوم فرعون کے سرداروں نے کہا کہ کیا آپ موسیٰ ( علیہ السلام ) اور ان کی قوم کو یوں ہی رہنے دیں گے کہ وہ ملک میں فساد کرتے پھریں اور وہ آپ کو اور آپ کے معبودوں کو ترک کیئے رہیں فرعون نے کہا کہ ہم ابھی ان لوگوں کے بیٹوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے اور عورتوں کو زندہ رہنے دیں گے اور ہم کو ان پر ہر طرح کا زور ہے ۔
و قال الملا من قوم فرعون اتذر موسى و قومه ليفسدوا في الارض و يذرك و الهتك قال سنقتل ابناءهم و نستحي نساءهم و انا فوقهم قهرون
And the eminent among the people of Pharaoh said," Will you leave Moses and his people to cause corruption in the land and abandon you and your gods?" [Pharaoh] said, "We will kill their sons and keep their women alive; and indeed, we are subjugators over them."
Aur qom-e-fiaon kay sardaron ney kaha kay kiya aap musa ( alh-e-salam ) aur unn ki qom ko yun hi rehney den gay kay woh mulk mein fasaad kertay phiren aur woh aap ko aur aap kay maboodon ko tarak kiye rahen. Firaon ney kaha kay hum abhi inn logon kay beton ko qatal kerna shuroo ker den gay aur aurton ko zinda rehney den gay aur hum ko inn per her tarah ka zor hai.
اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے ( فرعون سے ) کہا : کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو کھلا چھوڑ رہے ہیں ، تاکہ وہ زمین میں فساد مچائیں ، اور آپ اور آپ کے خداؤں کو پس پشت ڈال دیں؟ ( ٥٦ ) وہ بولا : ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے اور ہمیں ان پر پورا پورا قابو حاصل ہے ۔
اور قوم فرعون کے سردار بولے کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو اس لیے چھوڑتا ہے کہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں ( ف۲۲۵ ) اور موسیٰ تجھے اور تیرے ٹھہرائے ہوئے معبودوں کو چھوڑ دے ( ف۲۲٦ ) بولا اب ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی بیٹیاں زندہ رکھیں گے اور ہم بیشک ان پر غالب ہیں ( ف۲۲۷ )
فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یونہی چھوڑ دے گا کہ ملک میں فساد پھیلائیں اور وہ تیری اور تیرے معبودوں کی بندگی چھوڑ بیٹھے؟ فرعون نے جواب دیا میں ان کے بیٹوں کو قتل کراؤں گا اور ان کی عورتوں کو جیتا رہنے دوں گا 93 ۔ ہمارے اقتدار کی گرفت ان پر مضبوط ہے ۔
اور قومِ فرعون کے سرداروں نے ( فرعون سے ) کہا: کیا تو موسٰی اور اس کی ( اِنقلاب پسند ) قوم کو چھوڑ دے گا کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور ( پھر کیا ) وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ اس نے کہا: ( نہیں ) اب ہم ان کے لڑکوں کو قتل کردیں گے ( تاکہ ان کی مردانہ افرادی قوت ختم ہوجائے ) اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے ( تاکہ ان سے زیادتی کی جاسکے ) ، اور بیشک ہم ان پر غالب ہیں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :93 واضح رہے کہ ایک دور ستم وہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے رعمسیس ثانی کے زمانہ میں جاری ہوا تھا ، اور دوسرا دور ستم یہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے بعد شروع ہوا ۔ دونوں میں یہ بات مشترک ہے کہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرایا گیا اور ان کی بیٹیوں کو جیتا چھوڑ دیا گیا تا کہ بتدریج ان کی نسل کا خاتمہ ہو جائے اور یہ قوم دوسری قوموں میں گم ہو کر رہ جائے ۔ غالباً اسی دور کا ہے وہ کتبہ جو سن ١۸۹٦ء میں قدیم مصری آثار کی کھدائی کے دوران میں ملا تھا اور جس میں یہی فرعون منفتاح اپنے کارناموں اور فتوحات کا ذکر کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ”اور اسرائیل کو مٹا دیا گا ، اس کا بیج تک باقی نہیں ۔ “ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو المومن ، آیت ۲۵ )
آخری حربہ بغاوت کا الزام فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے ، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں ۔ آیت ( ویذرک ) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت ( وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک ) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں ۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے ، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا ۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا ، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو ۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا ۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے ۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے ۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کر دیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے ، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا ، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے ، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے ۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ یقین مانو کہ تمھارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالیٰ اوج پر پہنچائے گا ۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے ۔