Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَجَاوَزۡنَا بِبَنِىۡۤ اِسۡرَاۤءِيۡلَ الۡبَحۡرَ فَاَ تَوۡا عَلٰى قَوۡمٍ يَّعۡكُفُوۡنَ عَلٰٓى اَصۡنَامٍ لَّهُمۡ‌ ۚ قَالُوۡا يٰمُوۡسَى اجۡعَلْ لَّـنَاۤ اِلٰهًا كَمَا لَهُمۡ اٰلِهَةٌ‌  ؕ قَالَ اِنَّكُمۡ قَوۡمٌ تَجۡهَلُوۡنَ‏ ﴿138﴾
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار اتار دیا ۔ پس ان لوگوں کا ایک قوم پر گزر ہوا جو اپنے چند بتوں سے لگے بیٹھے تھے ، کہنے لگے اے موسیٰ! ہمارے لئے بھی ایک معبود ایسا ہی مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے ۔
و جوزنا ببني اسراءيل البحر فاتوا على قوم يعكفون على اصنام لهم قالوا يموسى اجعل لنا الها كما لهم الهة قال انكم قوم تجهلون
And We took the Children of Israel across the sea; then they came upon a people intent in devotion to [some] idols of theirs. They said, "O Moses, make for us a god just as they have gods." He said, "Indeed, you are a people behaving ignorantly.
Aur hum ney bani israeel ko darya kay paar utaar diya. Pus unn logon ka aik qom per guzar hua jo apney chand button say lagay bethay thay kehney lagay aey musa! Humaray liye bhi aik mabood aisa hi muqarrar ker dijiye! Jaisay inn kay yeh mabood hain. Aap ney farmaya kay waqaee tum logon mein bari jahalat hai.
اور ہم نے بنی اسرائیل سے سمندر پار کروایا ، تو وہ کچھ لوگوں کے پاس سے گذرے جو اپنے بتوں سے لگے بیٹھے تھے ، بنی اسرائیل کہنے لگے : اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی کوئی ایسا ہی دیوتا بنا دو جیسے ان لوگوں کے دیوتا ہیں ۔ ( ٦٣ ) موسیٰ نے کہا : تم ایسے ( عجیب ) لوگ ہو جو جہالت کی باتیں کرتے ہو ۔
اور ہم نے ( ف۲۵۳ ) بنی اسرائیل کو دریا پار اتارا تو ان کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا کہ اپنے بتوں کے آگے آسن مارے ( جم کر بیٹھے ) تھے ( ف۲۵٤ ) بولے اے موسیٰ! ہمیں ایک خدا بنادے جیسا ان کے لیے اتنے خدا ہیں ، بولا تم ضرور جا ہل لوگ ہو ، ( ف۲۵۵ )
بنی اسرائیل کو ہم نے سمندر سے گزار دیا ، پھر وہ چلے اور راستے میں ایک ایسی قوم پر ان کا گزر ہوا جو اپنے چند بتوں کی گرویدہ بنی ہوئی تھی ۔ کہنے لگے ، اے موسیٰ ، ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں ۔ 98 موسیٰ نے کہا تم لوگ بڑی نادانی کی باتیں کرتے ہو ۔
اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر ( یعنی بحرِ قلزم ) کے پار اتارا تو وہ ایک ایسی قوم کے پاس جا پہنچے جو اپنے بتوں کے گرد ( پرستش کے لئے ) آسن مارے بیٹھے تھے ، ( بنی اسرائیل کے لوگ ) کہنے لگے: اے موسٰی! ہمارے لئے بھی ایسا ( ہی ) معبود بنا دیں جیسے ان کے معبود ہیں ، موسٰی ( علیہ السلام ) نے کہا: تم یقیناً بڑے جاہل لوگ ہو
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :98 بنی اسرائیل نے جس مقام سے بحر احمر کو عبور کیا وہ غالباً موجودہ سویز اور اسماعیلیہ کے درمیان کوئی مقام تھا ۔ یہاں سے گزر کر یہ لوگ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی علاقے کی طرف ساحل کے کنارے کنارے روانہ ہوئے ۔ اس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا کا مغربی اور شمالی حصّہ مصر کی سلطنت میں شامل تھا ۔ جنوب کے علاقے میں موجودہ شہر طور اور ابو زَنِیمہ کے درمیان تانبے اور فیروزے کی کانیں تھیں ، جن سے اہل مصر بہت فائدہ اُٹھاتے تھے اور ان کانوں کی حفاظت کے لیے مصریوں نے چند مقامات پر چھاؤنیاں قائم کر رکھی تھیں ۔ انہی چھاؤنیوں میں سے ایک چھاؤنی مفقَہ کے مقام پر تھی جہاں مصریوں کا ایک بہت بڑا بُت خانہ تھا جس کے آثار اب بھی جزیرہ نما کے جنوبی مغربی علاقہ میں پائے جاتے ہیں ۔ اس کے قریب ایک اور مقام بھی تھا جہاں قدیم زمانے سے سامی قوموں کی چاند دیوی کا بُت خانہ تھا ۔ غالباً انہی مقامات میں سے کسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بنی اسرائیل کو ، جن پر مصریوں کی غلامی نے مصریت زدگی کا اچھا خاصا گہرا ٹھپّا لگا رکھا تھا ، ایک مصنوعی خدا کی ضرورت محسوس ہوئی ہوگی ۔ بنی اسرائیل کی ذہنیّت کو اہل مصر کی غلامی نے جیسا کچھ بگاڑ دیا تھا اس کا اندازہ اس بات سے بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ مصر سے نکل آنے کے ۷۰ برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اوّل حضرت یُوشع بن نُون اپنی آخری تقریر میں بنی اسرائیل کے مجمعِ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”تم خدا کا خوف رکھو اور نیک نیتی اور صداقت کے ساتھ اس کی پرستش کرو اور ان دیوتاؤں کو دور کر دو جن کی پرستش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے پار اور مصر میں کرتے تھے اور خداوند کی پرستش کرو ۔ اور اگر خداوند کی پرستش تم کو بری معلوم ہوتی ہو تو آج ہی تم اسے جس کی پرستش کرو گے چن لو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خداوند ہی کی پرستش کریں گے“ ( یشوع ۲٤:١٤ ۔ ١۵ ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٤۰ سال تک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اور ۲۸ سال حضرت یُوشع کی تربیت و رہنمائی میں زندگی بسر کر لینے کے بعد بھی یہ قوم اپنے اندر سے ان اثرات کو نہ نکال سکی جو فراعنہ مصر کی بندگی کے دور میں اس کی رگ رگ کے اندر اتر گئے تھے ۔ پھر بھلا کیونکر ممکن تھا کہ مصر سے نکلنے کے بعد فورًا ہی جو بُت کدہ سامنے آگیا تھا اس کو دیکھ کر ان بگڑے ہوئے مسلمانوں میں سے بہتوں کی پیشانیاں اس آستانے پر سجدہ کرنے کے لیے بیتاب نہ ہو جائیں جس پر وہ اپنے سابق آقاؤں کو ماتھا رگڑتے ہوئے دیکھ چکے تھے ۔
شوق بت پرستی اتنی ساری اللہ کی قدرت کی نشانیاں بنی اسرائیل دیکھ چکے لیکن دریا پار اترتے ہی بت پرستوں کے ایک گروہ کو اپنے بتوں کے آس پاس اعتکاف میں بیٹھے دیکھتے ہی حضرت موسیٰ سے کہنے لگے کہ ہمارے لئے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے تاکہ ہم بھی اس کی عبادت کریں جیسے کہ ان کے معبود ان کے سامنے ہیں ۔ یہ کافر لوگ کنعانی تھے ایک قول ہے کہ لحم قبیلہ کے تھے یہ گائے کی شکل بنائے ہوئے اس کی پوجا کر رہے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسکے جواب میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال سے محض ناواقف ہو ۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ شریک و مثیل سے پاک اور بلند تر ہے ۔ یہ لوگ جس کام میں مبتلا ہیں وہ تباہ کن ہے اور ان کا عمل باطل ہے ۔ ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے شریف سے حنین کو روانہ ہوئے تو راستے میں انہیں بیری کا وہ درخت ملا جہاں مشرکین مجاور بن کر بیٹھا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار وہاں لٹکایا کرتے تھے اس کا نام ذات انواط تھا تو صحابہ نے حضور سے عرض کیا کہ ایک ذات انواط ہمارے لئے بھی مقرر کر دیں ۔ آپ نے فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری ذات ہے کہ تم نے قوم موسیٰ جیسی بات کہدی کہ ہمارے لئے بھی معبود مقرر کر دیجئے جیسا ان کا معبود ہے ۔ جس کے جواب میں حضرت کلیم اللہ نے فرمایا تم جاہل لوگ ہو یہ لوگ جس شغل میں ہیں وہ ہلاکت خیز ہے اور جس کام میں ہیں وہ باطل ہے ( ابن جریر ) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ یہ درخواست کرنے والے حضرت ابو واقد لیثی تھے جواب سے پہلے یہ سوال سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ اکبر کہنا بھی مروی ہے اور یہ بھی کہ آپ نے فرمایا کہ تم بھی اپنے اگلوں کی سی چال چلنے لگے ۔