Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَلَمَّا جَآءَ مُوۡسٰى لِمِيۡقَاتِنَا وَكَلَّمَهٗ رَبُّهٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِىۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَيۡكَ‌ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰٮنِىۡ وَلٰـكِنِ انْظُرۡ اِلَى الۡجَـبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَكَانَهٗ فَسَوۡفَ تَرٰٮنِىۡ‌ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰى رَبُّهٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَهٗ دَكًّا وَّخَرَّ مُوۡسٰى صَعِقًا‌ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَكَ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿143﴾
اور جب موسیٰ ( علیہ السلام ) ہمارے وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے پروردگار !اپنا دیدار مجھ کو کرا دیجئے کہ میں ایک نظر آپ کو دیکھ لوں ارشاد ہوا کہ تم مجھ کو ہرگز نہیں دیکھ سکتے لیکن تم اس پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو وہ اگر اپنی جگہ پر برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے ۔ پس جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو تجلی نے اس کے پرخچے اڑا دیئے اور موسیٰ ( علیہ السلام ) بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا ، بیشک آپ کی ذات منزہ ہے میں آپ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والا ہوں ۔
و لما جاء موسى لميقاتنا و كلمه ربه قال رب ارني انظر اليك قال لن ترىني و لكن انظر الى الجبل فان استقر مكانه فسوف ترىني فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا و خر موسى صعقا فلما افاق قال سبحنك تبت اليك و انا اول المؤمنين
And when Moses arrived at Our appointed time and his Lord spoke to him, he said, "My Lord, show me [Yourself] that I may look at You." [ Allah ] said, "You will not see Me, but look at the mountain; if it should remain in place, then you will see Me." But when his Lord appeared to the mountain, He rendered it level, and Moses fell unconscious. And when he awoke, he said, "Exalted are You! I have repented to You, and I am the first of the believers."
Aur jab musa ( alh-e-salam ) humaray waqt per aaye aur unn kay rab ney unn say baaten kin to arz kiya kay aey meray perwerdigar! Apna deedar mujh ko kera dijiye kay mein aik nazar aap ko dekh loon irshad hua kay tum mujh ko hergiz nahi dekh saktay lekin tum iss pahar ki taraf dekhtay raho woh agar apni jagah per bar qarar raha to tum bhi mujhay dekh sako gay. Pus jab unn kay rab ney pahar per tajalli farmaee to tajalli ney uss kay purkhachay ura diye aur musa ( alh-e-salam ) bey hosh ho ker girr paray. Phir jab hosh mein aaye to arz kiya be-shak aap ki zaat pak hai mein aap ki janab mein tauba kerta hun aur mein sab say pehlay aap per eman laney wala hun.
اور جب موسیٰ ہمارے مقررہ وقت پر پہنچے اور ان کا رب ان سے ہم کلام ہوا تو وہ کہنے لگے : میرے پروردگار ! مجھے دیدار کرا دیجیے کہ میں آپ کو دیکھ لوں ۔ فرمایا : تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے ، البتہ پہاڑ کی طرف نظر اٹھاؤ ، اس کے بعد اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم مجھے دیکھ لو گے ۔ ( ٦٥ ) پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اس کو ریزہ ریزہ کردیا ، اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ بعد میں جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے کہا : پاک ہے آپ کی ذات ۔ میں آپ کے حضور توبہ کرتا ہوں اور ( آپ کی اس بات پر کہ دنیا میں کوئی آپ کو نہیں دیکھ سکتا ) میں سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں ۔
اور جب موسیٰ ہمارے وعدہ پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام فرمایا ( ف۲٦۳ ) عرض کی اے رب میرے! مجھے اپنا دیدار دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا ( ف۲٦٤ ) ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا ( ف۲٦۵ ) پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا اسے پاش پاش کردیا اور موسیٰ گرا بیہوش پھر جب ہوش ہوا بولا پاکی ہے تجھے میں تیری طرف رجوع لایا اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں ( ف۲٦٦ )
جب وہ ہمارے مقرر کیے ہوئے وقت پر پہنچا اور اس کے رب نے اس سے کلام کیا تو اس نے التجا کی کہ اے ربّ ، مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھوں ۔ فرمایا تو مجھے نہیں دیکھ سکتا ۔ ہاں ذرا سامنے کے پہاڑ کی طرف دیکھ ، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہ جائے تو البتہ تو مجھے دیکھ سکے گا ۔ چنانچہ اس کے رب نے جب پہاڑ پر تجلّی کی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑا ۔ جب ہوش آیا تو بولا پاک ہے تیری ذات ، میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلا ایمان لانے والا میں ہوں ۔
اور جب موسٰی ( علیہ السلام ) ہمارے ( مقرر کردہ ) وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا تو ( کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کا آرزو مند ہوا اور ) عرض کرنے لگا: اے رب! مجھے ( اپنا جلوہ ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں ، ارشاد ہوا: تم مجھے ( براہِ راست ) ہرگز دیکھ نہ سکوگے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے ۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر ( اپنے حسن کا ) جلوہ فرمایا تو ( شدّتِ اَنوار سے ) اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی ( علیہ السلام ) بے ہوش ہو کر گر پڑا ۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا ایمان لانے والا ہوں
طلب زیارت اور موت وعدے کے مطابق حضرت موسیٰ طور پہاڑ پر پہنچے ، اللہ کا کلام سنا تو دیدار کی آرزو کی ، جواب ملا کہ یہ تیرے لئے ناممکن ہے ۔ اس سے معتزلہ نے استدلال کیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ کا دیدار نہ ہوگا کیونکہ لن ابدی نفی کے لئے آتا ہے لیکن یہ قول بالکل ہی بودا ہے کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مومنوں کو قیامت کے دن اللہ کا دیدار ہوگا ۔ وہ حدیثیں آیت ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ ) 75- القيامة:22 ) اور آیت ( كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ 15؀ۭ ) 83- المطففين:15 ) کی تفسیر میں آئیں گی ان شاء اللہ تعالٰی ، ایک قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ یہ نفی ابدی ہے لیکن دنیاوی زندگی کے لئے نہ کہ آخرت کے لئے بھی ۔ کیونکہ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ مومنوں کو قطعاً ہوگا جیسے کہ آیات و احادیث سے ثابت ہے اس طرح کوئی معارضہ بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہ آیت مثل ( لا تدرکہ الا بصار ) کے ہے جس کی تفسیر سورۃ انعام میں گذر چکی ہے ۔ اگلی کتابوں میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس درخواست پر ان سے کہا گیا تھا کہ اے موسیٰ مجھے جو زندہ شخص دیکھ لے وہ مر جائے ۔ میرے دیدار کی تاب کوئی زندہ لا نہیں سکتا ۔ خشک چیزیں بھی میری تجلی سے تھرا اٹھتی ہیں چنانجہ پہاڑ کا حال خود کلیم اللہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور خود بھی بیہوش ہوگئے ۔ امام ابو جعفر طبری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضور فرماتے ہیں کہ جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی ڈالی ، اپنی انگلی سے اشارہ کیا تو وہ چکنا چور ہو گیا ۔ راوی حدیث ابو اسماعیل نے اپنے شاگردوں کو اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ، لیکن اس حدیث کی سند میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام واضح نہیں کیا گیا ، ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کو اپنی چھنگلیا کی اوپر کی پور پر رکھ کر بتایا کہ اتنے سے جمال سے پہاڑ زمین کے ساتھ ہموار ہو گیا ۔ مسند کی روایت میں ہے کہ حمید نے اپنے استاد سے کہا اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو استاد نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ حضرت انس بن مالک سے میں نے یہ سنا اور انہوں نے آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ ترمذی میں بھی یہ ہدایت ہے اور امام صاحب نے اسے حسن صحیح غریب فرمایا ہے ۔ مستدرک میں اسے وارد کر کے کہا ہے کہ یہ شرط مسلم پر ہے اور صحیح ہے ۔ خلال کہتے ہیں اس کی سند صحیح ہے اس میں کوئی علت نہیں ۔ ابن مردویہ میں بھی مرفوعاً مروی ہے لیکن اس کی بھی سند صحیح نہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں صرف بقدر چھنگلی انگلی کے تجلی ہوئی تھی جس سے وہ مٹی کی طرح چور چور ہو گیا اور کلیم اللہ بھی بیہوش ہوگئے ۔ کہتے ہیں وہ پہاڑ دھنس گیا سمندر میں چلا گیا اور حضرت موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑے بعض بزرگ فرماتے ہیں وہ پہاڑ اب قیامت تک ظاہر نہ ہوگا بلکہ زمین میں اترتا چلا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے اس تجلی سے چھ پہاڑ اپنی جگہ سے اڑ گئے جن میں سے تین مکے میں ہیں اور تین مدینے میں ۔ احد رقان اور رضوی مدینے میں ۔ حرا ، ثبیر اور ثور مکے میں ۔ لیکن یہ حدیث بالکل غریب ہے بلکہ منکر ہے ۔ کہتے ہیں کہ طور پر تجلی کے ظہور سے پہلے پہاڑ بالکل صاف تھے اس کے بعد ان میں غار اور کھڈ اور شاخیں قائم ہوگئیں ۔ جناب کلیم اللہ کی آرزو کے جواب میں انکار ہوا اور پھر مزید تشفی کے لئے فرمایا گیا کہ میری ادنیٰ سی تجلی کی برداشت تجھ سے تو کیا بہت زیادہ قوی مخلوق میں بھی نہیں ۔ دیکھ پہاڑ کی جانب خیال رکھ پھر اس پر اپنی تجلی ڈالی جس سے پہاڑ جھک گیا اور موسیٰ بیہوش ہوگئے صرف اللہ کی نظر نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا وہ بالکل مٹی ہو کر ریت کا میدان ہو گیا ۔ بعض قرأت وں میں اسی طرح ہے اور ابن مردویہ میں ایک مرفوع حدیث بھی ہے ۔ حضرت موسیٰ کو غشی آگئی یہ ٹھیک نہیں کہ موت آ گئی گولغتاً یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے آیت ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68؀ ) 39- الزمر:68 ) میں موت کے معنی ہیں ۔ لیکن وہاں قرینہ موجود ہے جو اس لفظ سے اسی معنی کے ہونے کی تائید کرتا ہے اور یہاں کا قرینہ بیہوشی کی تائید کرتا ہے کیونکہ آگے فرمان ہے آیت ( فلما افاق ) ظاہر ہے کہ افاقہ بیہوشی سے ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ ہوش میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور تعظیم و جلال بیان فرمانے لگے کہ واقعی وہ ایسا ہی ہے کہ کوئی زندہ اس کے جمال کی تاب نہیں لا سکتا ۔ پھر اپنے سوال سے توبہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سب بنی اسرائیل سے پہلے میں ایمان لانے والا بنتا ہوں ۔ میں اس پر سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں کہ واقعی کوئی زندہ آنکھ تجھے دیکھ نہیں سکتی ۔ یہ مطلب نہیں کہ آپ سے پہلے کوئی مومن ہی نہ تھا بلکہ مراد یہ ہے کہ اللہ کا دیدار زندوں کے لئے ناممکن ہے ۔ ابن جریر میں اس آیت کی تفسیر میں محمد بن اسحاق بن یسار کی روایت سے ایک عجیب وغریب مطول اثر نقل کیا گیا ہے عجب نہیں کہ یہ اسرائیلی روایتوں میں سے ہو واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ ایک یہود کو کسی نے ایک تھپڑ مارا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت لایا کہ آپ کے فلاں انصاری صحابی نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔ آپ نے اسے بلوایا اور اس سے پوچھا ۔ اس نے کہا سچ ہے ۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ کہہ رہا تھا اس اللہ کی قسم ہے جس نے موسیٰ کو تمام جہاں پر فضیلت دی تو میں نے کہا کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ؟ اور غصے میں آ کر میں نے اسے تھپڑ مار دیا ۔ آپ نے فرمایا سنو نبیوں کے درمیان تم مجھے فضیلت نہ دیا کرو ۔ قیامت میں سب بیہوش ہوں گے سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا تو میں دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ تھامے ہوئے ہیں ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہوا ؟ یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش ہی نہیں ہوئے؟ یہ حدیث بخاری شریف میں کئی جگہ ہے اور مسلم شریف میں بھی ہے اور ابو داؤد میں بھی ہے ۔ بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا جھگڑا ہو گیا اس پر مسلمان نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہان پر فضیلت دی اور یہودی نے کہا اس کی قسم جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان پر فضیلت دی ۔ اس پر مسلمان نے اسے تھپڑ مارا ۔ اس روایت میں ہے کہ شاید موسیٰ ان میں سے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے بیہوشی سے استثنا کر لیا ۔ حافظ ابو بکر ابن ابی الدنیا رحمتہ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ یہ تھپڑ مارنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ لیکن بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ یہ کوئی انصاری رضی اللہ عنہ تھے ۔ یہی زیادہ صحیح اور زیادہ صریح ہے واللہ اعلم ۔ اس حدیث میں یہ فرمان کہ تم نبیوں کے درمیان مجھے فضیلت نہ دو ایسا ہی ہے جیسے اور حدیث میں بھی فرمان ہے کہ نبیوں میں مجھے فضیلت نہ دو ۔ نہ حضرت یونس بن متی علیہ السلام پر فضیلت دو ۔ یہ فرمان بطور تواضع کے ہے یا یہ فرمان اس سے پہلے ہے کہ آپ کو اپنی فضیلت کا علم اللہ کی طرف سے ہوا ہو ۔ یا یہ مطلب ہے کہ غصے میں آ کر یا تعصب کی بنا پر مجھے فضیلت نہ دو یا یہ کہ صرف اپنی رائے سے میری فضیلت قائم نہ کرو ۔ واللہ اعلم ۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش ہوں گے یہ بہوشی میدان قیامت کی بعض ہولناکیوں کی وجہ سے ہوگی واللہ اعلم ۔ بہت ممکن ہے یہ اس وقت کا حال ہو جب الہ الملک و دیان تبارک و تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرنے کیلئے تشریف لائے گا تو اس کی تجلی سے لوگ بیہوش ہو جائیں گے ۔ جیسے حضرت موسیٰ اللہ کے جمال کی برداشت کو طور پر نہ لا سکے ۔ اسی لئے آپ کا فرمان ہے کہ نہ معلوم مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہوا یا طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں بیہوش نہ ہوئے ۔ قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب الشفا کے شروع میں لکھتے ہیں کہ دیدار الٰہی کی اس تجلی کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اس چیونٹی کو بھی دیکھ لیا کرتے تھے جو دس فرسخ دور رات کے اندھیرے میں کسی پتھر پر چل رہی ہو اور بہت ممکن ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا معراج کے واقعہ کے بعد مخصوص ہوئے ہوں اور آپ نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا قاضی صاحب کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے حالانکہ اس کی سند غور طلب ہے ۔ اس میں مجہول راوی ہیں اور ایسی باتیں جب تک ثقہ راویوں کے سلسلے نہ ثابت ہوں قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ واللہ اعلم ۔