Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَاتۡلُ عَلَيۡهِمۡ نَبَاَ الَّذِىۡۤ اٰتَيۡنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنۡهَا فَاَتۡبَعَهُ الشَّيۡطٰنُ فَكَانَ مِنَ الۡغٰوِيۡنَ‏ ﴿175﴾
اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے بالکل نکل گیا ، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ۔
و اتل عليهم نبا الذي اتينه ايتنا فانسلخ منها فاتبعه الشيطن فكان من الغوين
And recite to them, [O Muhammad], the news of him to whom we gave [knowledge of] Our signs, but he detached himself from them; so Satan pursued him, and he became of the deviators.
Aur inn logon ko uss shaks ka haal parh ker sunaiye kay jiss ko hum ney apni aayaten den phir woh inn say bilkul hi nikal gaya phir shetan uss kay peechay lag gaya so woh gumrah logon mein shamil hogaya.
اور ( اے رسول ) ان کو اس شخص کا واقعہ پڑھ کر سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں مگر وہ ان کو بالکل چھوڑ نکلا ، پھر شیطان اس کے پیچھے لگا ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگیا ۔ ( ٨٩ )
اور اے محبوب! انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں ( ف۳٤۲ ) تو وہ ان سے صاف نکل گیا ( ف۳٤۳ ) تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہوگیا ،
اور اے محمد ان کے سامنے اس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا 138 مگر وہ ان کی پابندی سے نِکل بھاگا ۔ آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا ۔
اور آپ انہیں اس شخص کا قصہ ( بھی ) سنا دیں جسے ہم نے اپنی نشانیاں دیں پھر وہ ان ( کے علم و نصیحت ) سے نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :138 ان الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ضرور کوئی متعین شخص ہوگا جس کی طرف اشارہ فرما یا گیا ہے لیکن اللہ اور اس کے رسول کی یہ انتہائی اخلاقی بلندی ہے کہ وہ جب کبھی کسی کی برائی کو مثال میں پیش کرتے ہیں تو بالعموم اس کے نام کی تصریح نہیں کرتے بلکہ اس کی شخصیت پر پردہ ڈال کر صرف اس کی بری مثال کا ذکر کردیتے ہیں تا کہ اس کی رسوائی کیے بغیر اصل مقصد حاصل ہو جائے ۔ اسی لیے نہ قرآن میں بتایا گیا ہے اور نہ کسی صحیح حدیث میں کہ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، کون تھا ۔ مفسرین نے عہد رسالت اور اس سے پہلے کی تاریخ کے مختلف اشخاص پر اس مثال کو چسپاں کیا ہے ۔ کوئی بلعم بن باعوراء کا نام لیتا ہے ، کوئی اُمیّہ بن ابی الصَّلت کا ، اور کوئی صَیفی ابن الراہب کا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے جو اس تمثیل میں پیش نظر تھا ، البتہ یہ تمثیل ہر اس شخص پر چسپاں ہوتی ہے جس میں یہ صفت پائی جاتی ہو ۔
بلعم بن باعورا مروی ہے کہ جس کا واقعہ ان آیتوں میں بیان ہو رہا ہے اس کا نام بلعم بن باعورا ہے ۔ یہ بھی کہ کہا گیا ہے کہ اس کا نام ضفی بن راہب تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بلقاء کا ایک شخص تھا جو اسم اعظم جانتا تھا اور جبارین کے سات ہی بیت المقدس میں رہا کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ یمنی شخص تھا جس نے کلام اللہ کو ترک کر دیا تھا ، یہ شخص بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھا ، اس کی دعا مقبول ہو جایا کرتی تھی ۔ بنی اسرائیل سختیوں کے وقت اسے آگے کر دیا کرتے تھے ۔ اللہ اس کی دعا مقبول فرما لیا کرتا تھا ۔ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے بادشاہ کی طرف اللہ کے دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجا تھا اس عقلمند بادشاہ نے اسے مکرو فریب سے اپنا کر لیا ۔ اس کے نام کئی گاؤں کر دیئے اور بہت کجھ انعام و اکرام دیا ۔ یہ بد نصیب دین موسوی کو چھوڑ کر اس کے مذہب میں جا ملا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا نام بلعام تھا ۔ یہ بھی ہے کہ یہ امیہ بن ابو صلت ہے ۔ ممکن ہے یہ کہنے والے کی یہ مراد ہو کہ یہ امیہ بھی اسی کے مشابہ تھا ۔ اسے بھی اگلی شریعتوں کا علم تھا لیکن یہ ان سے فائدہ نہ اٹھا سکا ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو بھی اس نے پایا آپ کی آیات بینات دیکھیں ، معجزے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے ، ہزارہا کو دین حق میں داخل ہوتے دیکھا ، لیکن مشرکین کے میل جول ، ان میں امتیاز ، ان میں دوستی اور وہاں کی سرداری کی ہوس نے اسے اسلام اور قبول حق سے روک دیا ۔ اسی نے بدری کافروں کے ماتم میں مرثئے کہے ، لعنتہ اللہ ۔ بعض احادیث میں وارد ہے کہ اس کی زبان تو ایمان لا چکی تھی لیکن دل مومن نہیں ہوا تھا کہتے ہیں کہ اس شخص سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا کہ اس کی دعائیں جو بھی یہ کرے گا مقبول ہوں گی اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس سے کہا کہ ان تین دعاؤں میں سے ایک دعا میرے لئے کر ۔ اس نے منظور کر لیا اور پوچھا کیا دعا کرانا چاہتی ہو؟ اس نے کہا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس قدر حسن و خوبصورتی عطا فرمائے کہ مجھ سے زیادہ حسین عورت بنی اسرائیل میں کوئی نہ ہو ۔ اس نے دعا کی اور وہ ایسی ہی حسین ہو گئی ۔ اب تو اس نے پر نکالے اور اپنے میاں کو محض بےحقیقت سمجھنے لگی بڑے بڑے لوگ اس کی طرف جھکنے لگے اور یہ بھی ان کی طرف مائل ہو گئی اس سے یہ بہت کڑھا اور اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ اسے کتیا بنا دے ۔ یہ بھی منظور ہوئی وہ کتیا بن گئی ۔ اب اس کے بچے آئے انہوں نے گھیر لیا کہ آپ نے غضب کیا لوگ ہمیں طعنہ دیتے ہیں اور ہم کتیا کے بچے مشہور ہو رہے ہیں ۔ آپ دعا کیجئے کہ اللہ اسے اس کی اصلی حالت میں پھر سے لا دے ۔ اس نے وہ تیسری دعا بھی کر لی تینوں دعائیں یوں ہی ضائع ہوگئیں اور یہ خالی ہاتھ بےخیر رہ گیا ۔ مشہور بات تو یہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بزرگوں میں سے یہ ایک شخص تھا ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہدیا ہے کہ یہ نبی تھا ۔ یہ محض غلط ہے ، بالکل جھوٹ ہے اور کھلا افترا ہے ۔ مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب قوم جبارین سے لڑائی کے لئے بنی اسرائیل کی ہمراہی میں گئے انہی جبارین میں بلغام نامی یہ شخص تھا اس کی قوم اور اس کے قرابت دار چچا وغیرہ سب اس کے پاس آئے اور کہا کہ موسیٰ اور اس کی قوم کے لئے آپ بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا آخرت دونوں خراب ہو جائیں گی لیکن قوم سر ہوگئی ۔ یہ بھی لحاظ مروت میں آ گیا ۔ بد دعا کی ، اللہ تعالیٰ نے اس سے کرامت چھین لی اور اسے اس کے مرتبے سے گرا دیا ۔ سدی کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل کو وادی تیہ میں چالیس سال گذر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا انہوں نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں لے کر جاؤں اور ان جبارین سے جہاد کروں ۔ یہ آمادہ ہوگئے ، بیعت کر لی ۔ انہی میں بلعام نامی ایک شخص تھا جو بڑا عالم تھا اسم اعظم جانتا تھا ۔ یہ بد نصیب کافر ہو گیا ، قوم جبارین میں جا ملا اور ان سے کہا تم نہ گھبراؤ جب بنی اسرائیل کا لشکر آ جائے گا میں ان پر بد دعا کروں گا تو وہ دفعتاًہلاک ہو جائے گا ۔ اس کے پاس تمام دنیوی ٹھاٹھ تھے لیکن عورتوں کی عظمت کی وجہ سے یہ ان سے نہیں ملتا تھا بلکہ ایک گدھی پال رکھی تھی ۔ اسی بد قسمت کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ شیطان اس پر غالب آ گیا اسے اپنے پھندے میں پھانس لیا جو وہ کہتا تھا یہ کرتا تھا آخر ہلاک ہو گیا ۔ مسند ابو یعلی موصلی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں جو قران پڑھ لے گا جو اسلام کی چادر اوڑھے ہوئے ہوگا اور دینی ترقی پر ہوگا کہ ایک دم اس سے ہٹ جائے گا ، اسے پس پشت ڈال دے گا ، اپنے پڑوسی پر تلوار لے دوڑے گا اور اسے شرک کی تہمت لگائے گا ۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ مشرک ہونے کے زیادہ قابل کون ہوگا ؟ یہ تہمت لگانے والا ؟ وہ جسے تہمت لگا رہا ہے فرمایا نہیں بلکہ تہمت دھرنے والا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم چاہتے تو قادر تھے کہ اسے بلند مرتبے پر پہنچائیں ، دنیا کی آلائشوں سے پاک رکھیں ، اپنی دی ہوئی آیتوں کی تابعداری پر قائم رکھیں لیکن وہ دنیوی لذتوں کی طرف جھک پڑا یہاں تک کہ شیطان کا پورا مرید ہوگیا ۔ اسے سجدہ کر لیا ۔ کہتے ہیں کہ اس بلعام سے لوگوں نے درخواست کی کہ آپ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں بد دعا کیجئے ۔ اس نے کہا اچھا میں اللہ سے حکم لے لوں ۔ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے مناجات کی تو اسے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل مسلمان ہیں اور ان میں اللہ کے نبی موجود ہیں اس نے سب سے کہا کہ مجھے بد دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے انہوں نے بہت سارے تحفے تحائف جمع کر کے اسے دیئے اس نے سب رکھ لئے ۔ پھر دوبارہ درخواست کی کہ ہمیں ان سے بہت خوف ہے آپ ضرور ان پر بد دعا کیجئے اس نے جواب دیا کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ سے اجازت نہ لے لوں میں ہرگز یہ نہ کروں گا اس نے پھر اللہ سے مناجات کی لیکن اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا اس نے یہی جواب انہیں دیا تو انہوں نے کہا دیکھو اگر منع ہی مقصود ہوتا تو آپ کو روک دیا جاتا جیسا کہ اس سے پہلے روک دیا گیا ۔ اس کی بھی سمجھ میں آ گیا اٹھ کر بد دعا شروع کی ۔ اللہ کی شان ہے بد دعا ان پر کرنے کے بجائے اس کی زبان سے اپنی ہی قوم کے لئے بد دعا نکلی اور جب اپنی قوم کی فتح کی دعا مانگنا چاہتا تو بنی اسرائیل کی فتح و نصرت کی دعا نکلتی ۔ قوم نے کہا آپ کیا غضب کر رہے ہیں؟ اس نے کہا کیا کروں؟ میری زبان میرے قابو میں نہیں ۔ سنو اگر سچ مچ میری زبان سے ان کے لئے بد دعا نکلی بھی تو قبول نہ ہوگی ۔ سنو اب میں تمہیں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم اس میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لو کہ بنی اسرائیل برباد ہو جائیں گے تم اپنی نوجوان لڑکیوں کو بناؤ سنگھار کرا کے ان کے لشکروں میں بھیجو اور انہیں ہدایت کر دو کہ کوئی ان کی طرف جھکے تو یہ انکار نہ کریں ممکن ہے بوجہ مسافرت یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں اگر یہ ہوا تو چونکہ یہ حرام کاری اللہ کو سخت ناپسند ہے اسی وقت ان پر عذاب آ جائے گا اور یہ تباہ ہو جائیں گے ۔ ان بےغیرتوں نے اس بات کو مان لیا اور یہی کیا ۔ خود بادشاہ کی بڑی حسین و جمیل لڑکی بھی بن ٹھن کر نکلی اسے ہدایت کر دی گئی تھی کہ سوائے حضرت موسیٰ کے اور کسی کو اپنا نفس نہ سونپے ۔ یہ عورتیں جب بنی اسرائیل کے لشکر میں پہنچیں تو عام لوگ بےقابو ہوگئے حرام کاری سے بچ نہ سکے ۔ شہزادی بنی اسرائیل کے ایک سردار کے پاس پہنچی ۔ اس سردار نے اس لڑکی پر ڈورے ڈالے لیکن اس لڑکی نے انکار کیا ۔ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں ہوں ، اس نے اپنے باپ سے یا بلعام سے پچھوایا اس نے اجازت دی ۔ یہ خبیث اپنا منہ کالا کر رہا تھا جسے حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی صاحب نے دیکھ لیا اپنے نیزے سے ان دونوں کو پرودیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دست و بازی قوی کر دیئے اس نے یونہی ان دونوں کو چھدے ہوئے اٹھا لیا لوگوں نے بھی انہیں دیکھا ۔ اب اس لشکر پر عذاب رب بشکل طاعون آیا اور ستر ہزار آدمی فوراً ہلاک ہوگئے ۔ بلعام اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلا وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر رک گئی اب بلعام اسے مارتا پیٹتا ہے لیکن وہ قدم نہیں اٹھاتی ۔ آخر گدھی نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے کیوں مار رہا ہے سامنے دیکھ کون ہے؟ اس نے دیکھ تو شیطان لعین کھڑا ہوا تھا یہ اتر پڑا اور سجدے میں گر گیا ۔ الغرض ایمان سے خالی ہو گیا اس کا نام یا تو بلعام تھا ۔ یا بلعم بن با عورا یا ابن ابر بار بن باعور بن شہوم بن قوشتم بن مآب بن لوط بن ہارون یا ابن مران بن آزر ۔ یہ بلقا کا رئیس تھا ، اسم اعظم جانتا تھا لیکن اخیر میں دین حق سے ہٹ گیا ۔ واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ قوم کے زیادہ کہنے سننے سے جب یہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بد دعا کے لئے چلا تو اس کی گدھی بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے مار پیٹ کر اٹھایا کچھ دور چل کر پھر بیٹھ گئی ۔ اس نے اسے پھر مار پیٹ کر اٹھایا ، اسے اللہ نے زبان دی ۔ اس نے کہا تیرا ناس جائے تو کہاں اور کیوں جا رہا ہے اللہ کے مقابلے اس کے رسول سے لڑنے اور مومنوں کو نقصان دلانے جا رہا ہے؟ دیکھ تو سہی فرشتے میری راہ روکے کھڑے ہیں ۔ اس نے پھر بھی کچھ خیال نہ کیا آگے بڑھ گیا ۔ حبان نامی پہاڑی پر چڑھ گیا جہاں سے بنو اسرائیل کا لشکر سامنے ہی نظر آتا تھا ۔ اب ان کیلئے بددعا اور اپنی قوم کے لئے دعائیں کرنے لگا لیکن زبان الٹ گئی دعا کی جگہ بد دعا اور بد دعا کی جگہ دعا نکلنے لگی ۔ قوم نے کہا کیا کر رہے ہو؟ کہا بےبس ہوں ۔ اسی وقت اس کی زبان نکل پڑی سینے پر لٹکنے لگی اس نے کہا لو میری دنیا بھی خراب ہوئی اور دین تو بالکل برباد ہو گیا پھر اس نے خوبصورت لڑکیاں بھیجنے کی ترکیب بتائی جیسے کہ اوپر بیان ہوا اور کہا کہ اگر ان میں سے ایک نے بھی بدکاری کر لی تو ان پر عذاب رب آ جائے گا ان عورتوں میں سے ایک بہت ہی حسین عورت جو کنانیہ تھی اور جس کا نام کستی تھا جو صور نامی ایک رئیس کی بیٹی تھی وہ جب بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے سردار زمری بن شلوم کے پاس سے گذری جو شمعون بن یعقوب کی نسل میں سے تھا وہ اس پر فریفتہ ہوگیا ۔ دلیری کے ساتھ اس کا ہاتھ تھامے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس گیا اور کہنے لگا آپ تو شاید کہدیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے؟ آپ نے کہا بیشک ۔ اس نے کہا اچھا میں آپ کی یہ بات تو نہیں مان سکتا ، اسے اپنے خیمے میں لے گیا اور اس سے منہ کالا کرنے لگا ۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر طاعون بھیج دیا ۔ حضرت فحاص بن غیرار بن ہارون اس وقت لشکر گاہ سے کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب آئے اور تمام حقیقت سنی تو بیتاب ہو کر غصے کے ساتھ اس بد کردار کے خیمے میں پہنچے اور اپنے نیزے میں ان دونوں کو پرو لیا اور اپنے ہاتھ میں نیزہ لئے ہوئے انہیں اوپر اٹھائے ہوئے باہر نکلے کہنی کو کھ پر لگائے ہوئے تھے کہنے لگے یا اللہ ہمیں معاف فرما ہم پر سے یہ وبا دور فرما دیکھ لے ہم تیرے نافرمانوں کے ساتھ یہ کرتے ہیں ۔ ان کی دعا اور اس فعل سے طاعون اٹھ گیا لیکن اتنی دیر میں جب حساب لگایا گیا تو ستر ہزار آدمی اور ایک روایت کی رو سے بیس ہزار مر چکے تھے ۔ دن کا وقت تھا اور کنانیوں کی یہ چھوکریاں سودا بیچنے کے بہانے صرف اس لئے آئی تھیں کہ بنو اسرائیل بدکاری میں پھنس جائیں اور ان پر عذاب آ جائیں ۔ بنو اسرائیل میں اب تک یہ دستور چلا آتا ہے کہ وہ اپنے ذبیحہ میں سے گردن اور دست اور سری اور ہر قسم کا سب سے پہلا پھل فحاص کی اولاد کو دیا کرتے ہیں ۔ اسی بلعام بن باعورا کا ذکر ان آیتوں میں ہے ۔ فرمان ہے کہ اس کی مثال کتے کی سی ہے کہ کالی ہے تو ہانپتا ہے اور دھتکارا جائے تو ہانپتا رہتا ہے ۔ یا تو اس مثال سے یہ مطلب ہے کہ بلعام کی زبان نیچے کو لٹک پڑی تھی جو پھر اندر کو نہ ہوئی کتے کی طرح ہانپتا رہتا تھا اور زبان باہر لٹکائے رہتا تھا ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ اس کی ضلالت اور اس پر جمے رہنے کی مثال دی کہ اسے ایمان کی دعوت ، علم کی دولت غرض کسی چیز نے برائی سے نہ ہٹایا جیسے کتے کی اس کی زبان لٹکنے کی حالت برابر قائم رہتی ہے خواہ اسے پاؤں تل روندو خواہ جھوڑ دو ۔ جیسے بعض کفار مکہ کی نسبت فرمان ہے کہ انہیں وعظ و پند کہنا نہ کہنا سب برابر ہے انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا اور جیسے بعض منافقوں کی نسبت فرمان ہے کہ ان کے لئے تو استغفار کر یا نہ کر اللہ انہیں نہیں بخشے گا ۔ یہ بھی مطلب اس مثال کا بیان کیا گیا ہے کہ ان کافروں منافقوں اور گمراہ لوگوں کے دل بودے اور ہدایت سے خالی ہیں یہ کبھی مطمئن نہیں ہوتے ۔ پھر اللہ عزوجل اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ تو انہیں پند و نصیحت کرتا رہ تاکہ ان میں سے جو عالم ہیں ، وہ غور و فکر کر کے اللہ کی راہ پر آ جائیں یہ سوچیں کہ بلعام ملعون کا کیا حال ہوا دینی علم جیسی زبردست دولت کو جس نے دنیا کی سفلی راحت پر کھو دیا ۔ آخر نہ یہ ملا نہ وہ ۔ دونوں ہاتھ خالی رہ گئے ۔ اسی طرح یہ علماء یہود جو اپنی کتابوں میں اللہ کی ہدایتیں پڑھ رہے ہیں ، آپ کے اوصاف لکھے پاتے ہیں ، انہیں چاہئے کہ دنیا کی طمع میں پھنس کر اپنے مریدوں کو پھانس کر پھول نہ جائیں ورنہ یہ بھی اس کی طرح دنیا میں کھو دیئے جائیں گے انہیں چاہئے کہ اپنی علمیت سے فائدہ اٹھائیں ۔ سب سے پہلے تیری اطاعت کی طرف جھکیں اور اوروں پر حق کو ظاہر کریں ۔ دیکھ لو کہ کفار کی کیسی بری مثالیں ہیں کہ کتوں کی طرح صرف نگلنے اگلنے اور شہوت رانی میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پس جو بھی علم و ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کے پورا کرنے میں لگ جائے وہ بھی کتے جیسا ہی ہے ۔ حضور فرماتے ہیں ہمارے لئے بری مثالیں نہیں اپنی ہبہ کی ہوئی چیز کو پھر لے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ گنہگار لوگ اللہ کا کچھ بگاڑتے نہیں یہ تو اپنا ہی خسارہ کر تے ہیں ۔ طاعت مولیٰ ، اتباع ہدی سے ہٹا کر خواہش کی غلامی دنیا کی چاہت میں پڑ کر اپنے دونوں جہان خراب کرتے ہیں ۔