Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰهُ بِهَا وَلٰـكِنَّهٗۤ اَخۡلَدَ اِلَى الۡاَرۡضِ وَاتَّبَعَ هَوٰٮهُ‌ ۚ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ الۡـكَلۡبِ‌ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ اَوۡ تَتۡرُكۡهُ يَلۡهَث ‌ؕ ذٰ لِكَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا‌ ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُوۡنَ‏ ﴿176﴾
اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں ۔
و لو شنا لرفعنه بها و لكنه اخلد الى الارض و اتبع هوىه فمثله كمثل الكلب ان تحمل عليه يلهث او تتركه يلهث ذلك مثل القوم الذين كذبوا بايتنا فاقصص القصص لعلهم يتفكرون
And if We had willed, we could have elevated him thereby, but he adhered [instead] to the earth and followed his own desire. So his example is like that of the dog: if you chase him, he pants, or if you leave him, he [still] pants. That is the example of the people who denied Our signs. So relate the stories that perhaps they will give thought.
Aur agar hum chahatay to uss ko inn aayaton ki badolat buland martaba ker detay lekin woh to duniya ki taraf maeel hogaya aur apni nafsaani khuwaish ki pairwi kerney laga so uss ki halat kuttay ki si hogaee kay agar tu iss per hamla keray tab bhi haanpay ya uss ko chor dey tab bhi haanpay yehi halat unn logon ki hai jinhon ney humari aayaton ko jhutlaya. So aap iss haal ko biyan ker dijiye shayad woh log kuch sochen.
اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی بدولت اسے سربلند کرتے ، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا ، اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا رہا ، اس لیے اس کی مثال اس کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی وہ زبان لٹکا کر ہانپے گا ، اور اگر اسے ( اس کے حال پر ) چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکا کر ہانپے گا ۔ ( ٩٠ ) یہ ہے مثال ان لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے ۔ لہذا تم یہ واقعات ان کو سناتے رہو ، تاکہ یہ کچھ سوچیں ۔
اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھالیتے ( ف۳٤٤ ) مگر وہ تو زمین پکڑ گیا ( ف۳٤۵ ) اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے ( ف۲٤٦ ) یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں ،
اگر ہم چاہتے اسے ان آیتوں کے ذریعہ سے بلندی عطا کرتے ، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا ، لہٰذا اس کی حالت کتّے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے ۔ 139 یہی مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں ۔ تم یہ حکایات ان کو سناتے رہو ، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں ۔
اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان ( آیتوں کے علم و عمل ) کے ذریعے بلند فرما دیتے لیکن وہ ( خود ) زمینی دنیا کی ( پستی کی ) طرف راغب ہوگیا اور اپنی خواہش کا پیرو بن گیا ، تو ( اب ) اس کی مثال اس کتے کی مثال جیسی ہے کہ اگر تو اس پر سختی کرے تو وہ زبان نکال دے یا تو اسے چھوڑ دے ( تب بھی ) زبان نکالے رہے ۔ یہ ایسے لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ، سو آپ یہ واقعات ( لوگوں سے ) بیان کریں تاکہ وہ غور و فکر کریں
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :139 ان دو مختصر سے فقروں میں بڑا اہم مضمون ارشاد ہوا ہے جسے ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے ۔ وہ شخص جس کی مثال یہاں پیش کی گئی ہے ، آیات الہٰی کا علم رکھتا تھا ، یعنی حقیقت سے واقف تھا ۔ اس علم کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اس رویہ سے بچتا جس کو وہ غلط جانتا تھا اور وہ طرز عمل اختیار کرتا جو اسے معلوم تھا کہ صحیح ہے ۔ اسی عمل مطابقِ علم کی بدولت اللہ تعالیٰ اس کو انسانیت کے بلند مراتب پر ترقی عطا کرتا ۔ لیکن وہ دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا ، خواہشات نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس نے ان کے آگے سپر ڈال دی ، معالی امور کی طلب میں دنیا کی حرص و طمع سے بالا تر ہونے کے بجائے وہ اس حرص و طمع سے ایسا مغلوب ہوا کہ اپنے سب اُونچے ارادوں اور اپنی عقلی و اخلاقی ترقی کے سارے امکانات کو طلاق دے بیٹھا اور ان تمام حدود کو توڑ کر نکل بھاگا جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اس کا علم کر رہا تھا ۔ پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بنا پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی اس کی گھات میں لگا ہوا تھا ۔ ، اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اسے ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ ظالم نے اسے ان لوگوں کے زمرے میں پہنچا کر ہی دم لیا جو اس کے دام میں پھنس کر پوری طرح اپنی متاع عقل و ہوش گم کر چکے ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس شخص کی حالت کو کُتّے سے تشبیہ دیتا ہے جس کی ہر وقت لٹکی ہوئی زبان اور ٹپکتی ہوئی رال ایک نہ بجھنے والی آتش حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے ۔ بنائے تشبیہ وہی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی اُردو زبان میں ایسے شخص کو دنیا کی حرص میں اندھا ہو رہا ہو ، دنیا کا کتّا کہتے ہیں کُتّے کی جبلت کیا ہے؟ حرص و آز ۔ چلتے پھرتے اس کی ناک زمین سونگھنے ہی میں لگی رہتی ہے کہ شاید کہیں سے بوئے طعام آجائے ۔ اسے پتھر ماریے تب بھی اس کی یہ توقع دور نہیں ہوتی کہ شاید یہ چیز جو پھینکی گئی ہے کوئی ہڈی یا روٹی کا کوئی ٹکڑا ہو ۔ پیٹ کا بندہ ایک دفعہ تو لپک کر اس کو بھی دانتوں سے پکڑ ہی لیتا ہے ۔ اس سے بے التفاتی کیجیے تب بھی وہ لالچ کا مارا توقعات کی ایک دنیا دل میں لیے ، زبان لٹکائے ، ہانپتا کانپتا کھڑا ہی رہے گا ۔ ساری دنیا کو وہ بس پیٹ ہی کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ کہیں کوئی بڑی سی لاش پڑی ہو ، جو کئی کتوں کے کھانے کو کافی ہو ، تو ایک کتا اس میں سے صرف اپنا حصہ لینے پر اکتفا نہ کرے گا بلکہ اسے صرف اپنے ہی لیے مخصوص رکھنا چاہے گا اور کسی دوسرے کتے کو اس کےپاس نہ بھٹکنے دے گا ۔ اس شہوت شکم کے بعد اگر کوئی چیز اس پر غالب ہے تو وہ ہے شہوتِ فَرج ۔ اپنے سارے جسم میں صرف ایک شرمگاہ ہی وہ چیز ہے جس سے وہ دل چسپی رکھتا ہے اور اسی کو سونگھنے اور چاٹنے میں مشغول رہتا ہے ۔ پس تشبیہ کا مدعا یہ ہے کہ دنیا پرست آدمی جب علم اور ایمان کی رسّی تُڑا کر بھاگتا ہے اور نفس کی اندھی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے تو پھر کتے کی حالت کو پہنچے بغیر نہیں رہتا ، ہمہ تن پیٹ اور ہمہ تن شرمگاہ ۔