Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
اَوَلَمۡ يَنۡظُرُوۡا فِىۡ مَلَـكُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنۡ شَىۡءٍ ۙ وَّاَنۡ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُهُمۡ‌ ۚ فَبِاَىِّ حَدِيۡثٍۢ بَعۡدَهٗ يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿185﴾
اور کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا آسمانوں اور زمین کے عالم میں اور دوسری چیزوں میں جو اللہ نے پیدا کیں ہیں اور اس بات میں کہ ممکن ہے کہ ان کی اجل قریب ہی آپہنچی ہو پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟
او لم ينظروا في ملكوت السموت و الارض و ما خلق الله من شيء و ان عسى ان يكون قد اقترب اجلهم فباي حديث بعده يؤمنون
Do they not look into the realm of the heavens and the earth and everything that Allah has created and [think] that perhaps their appointed time has come near? So in what statement hereafter will they believe?
Aur kiya inn logon ney ghor nahi kiya aasamanon aur zamin kay aalam mein aur doosri cheezon mein jo Allah ney peda ki hain aur iss baat mein kay mumkin hai kay unn ki ajal qarib hi aa phonchi ho. Phir quran kay baad konsi baat per yeh log eman layen gay?
اور کیا ان لوگوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت پر اور اللہ نے جو جو چیزیں پیدا کی ہیں ان پر غور نہیں کیا ، اور یہ ( نہیں سوچا ) کہ شاید ان کا مقررہ وقت قریب ہی آپہنچا ہو؟ اب اس کے بعد آخر وہ کونسی بات ہے جس پر یہ ایمان لائیں گے ؟
کیا انہوں نے نگاہ نہ کی آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں اور جو جو چیز اللہ نے بنائی ( ف۳٦۰ ) اور یہ کہ شاید ان کا وعدہ نزدیک آگیا ہو ( ف۳٦۱ ) تو اس کے بعد اور کونسی بات پر یقین لائیں گے ( ف۳٦۲ )
کیا ان لوگوں نے آسمان و زمین کے انتظام پر کبھی غور نہیں کیا اور کسی چیز کو بھی جو خدا نے پیدا کی ہے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا ؟ 143 اور کیا یہ بھی انہوں نے نہیں سوچا کہ شاید ان کی مہلتِ زندگی پوری ہونے کا وقت قریب آلگا ہو؟ 144 پھر آخر پیغمبر کی اس تنبیہ کے بعد اور کون سی بات ایسی ہو سکتی ہے ۔ جس پر یہ ایمان لائیں؟
کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور ( علاوہ ان کے ) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے ( اس میں ) نگاہ نہیں ڈالی؟ اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدتِ ( موت ) قریب آچکی ہو ، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :143 رفیق سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آپ انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، انہی کے درمیان رہے بسے ، بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھے ہوئے ۔ نبوت سے پہلے ساری قوم آپ کو ایک نہایت سلیم الطبع اور صحیح الدماغ آدمی کی حیثیت سے جانتی تھی ۔ نبوت کے بعد جب آپ نے خدا کا پیغام پہنچانا شروع کیا تو یکایک آپ کو مجنون کہنے لگی ۔ ظاہر ہے کہ یہ حکمِ جُنون ان باتوں پر نہ تھا جو آپ نبی ہونے سے پہلے کرتے تھے بلکہ صرف اُنہی باتوں پر لگایا جارہا تھا جن کی آپ نے نبی ہونے کے بعد تبلیغ شروع کی ۔ اسی وجہ سے فرمایا جارہا ہے کہ ان لوگوں نے کبھی سوچا بھی ہے ، آخر ان باتوں میں کونسی بات جنون کی ہے؟ کونسی بات بے تُکی ، بے اصل اور غیر معقول ہے؟ اگر یہ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے ، یا خدا کی بنائی ہوئی کسی چیز کو بھی بنظرِ تامل دیکھتے تو انہیں خود معلوم ہو جاتا کہ شرک کی تردید ، توحید کے اثبات ، بندگی رب کی دعوت اور انسان کی ذمہ داری و جواب دہی کے بارے میں جو کچھ ان کا بھائی انہیں سمجھا رہا ہے اس کی صداقت پر یہ پورا نظام کائنات اور خلق اللہ کا ذرہ ذرہ شہادت دے رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :144 یعنی نادان اتنا بھی نہیں سوچتے کہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے ، کچھ خبر نہیں کہ کب کس کی اجل آن پوری ہو ۔ پھر اگر ان میں سے کسی کا آخری وقت آگیا اور اپنے رویہ کی اصلاح کے لیے جو مہلت اسے ملی ہوئی ہے وہ انہی گمراہیوں اور بداعمالیوں میں ضائع ہوگئی تو آخر اس کا حشر کیا ہوگا ۔
شیطانی چکر اللہ تعالیٰ جل شانہ کی اتنی بڑی وسیع بادشاہت میں سے اور زمین و آسمان کی ہر طرح کی مخلوق میں سے کسی ایک چیز نے بھی بعد از غور وفکر انہیں یہ توفیق نہ دی کہ یہ با ایمان ہو جاتے ؟ اور رب کو بےنظیر و بےشبہ واحد و فردا مان لیتے ؟ اور جان لیتے کہ اتنی بڑی خلق کا خالق اتنے بڑے ملک کا واحد مالک ہی عبادتوں کے لائق ہے؟ پھر یہ ایمان قبول کر لیتے اسی کی عبادتوں میں لگ جاتے اور شرک و کفر سے یکسو ہو جاتے ؟ انہیں ڈر لگنے لگتا کہ کیا خبر ہماری موت کا وقت قریب ہی آ گیا ہو؟ ہم کفر پر ہی مر جائیں تو ابدی سزاؤں میں پڑ جائیں؟ جب انہیں اتنی نشانیوں کے دیکھ لینے کے بعد ، اس قدر باتیں سمجھا دینے کے بعد بھی ایمان و یقین نہ آیا ، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کے آ جانے کے بعد بھی یہ راہ رست پر نہ آئے تو اب کس بات کو مانیں گے؟ مسند کی ایک حدیث میں ہے کہ معراج والی رات جب میں ساتویں آسمان پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ گویا اوپر کی طرف بجلی کڑک اور کھڑ کھڑاہٹ ہو رہی ہے ، میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جن کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جتنے اونچے تھے جن میں سانپ بھر رہے تھے جو باہر سے ہی نظر آتے تھے میں نے حضرت جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتلایا یہ سود خور ہیں جب میں وہاں سے اترنے لگا تو آسمان اول پر آکر میں نے دیکھا کہ نیچے کی جانب دھواں ، غبار اور شور غل ہے میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ جبرائیل نے کہا یہ شیاطین ہیں جو اپنی خرمستیوں اور دھینگا مشتیوں سے لوگوں کی آنکھوں پر پردے ڈال رہے ہیں کہ وہ آسمان و زمین کی بادشاہت کی چیزوں میں غورو فکر نہ کر سکیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو وہ بڑے عجائبات دیکھتے ۔ اس کے ایک راوی علی بن زید بن جادعان کی بہت سی روایات منکر ہیں ۔