Surah

Information

Surah # 7 | Verses: 206 | Ruku: 24 | Sajdah: 1 | Chronological # 39 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 163-170, from Madina
خُذِ الۡعَفۡوَ وَاۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَاَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰهِلِيۡنَ‏ ﴿199﴾
آپ درگز ر کواختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں ۔
خذ العفو و امر بالعرف و اعرض عن الجهلين
Take what is given freely, enjoin what is good, and turn away from the ignorant.
Aap dar guzar ko ikhtiyar keren nek kaam ki taleem den aur jahilon say aik kinara hojayen.
۔ ( اے پیغمبر ) درگذر کا رویہ اپناؤ ، اور ( لوگوں کو ) نیکی کا حکم دو ، اور جاہلوں کی طرف دھیان نہ دو ۔
اے محبوب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور جاہلوں سے منہ پھیرلو ،
اے نبی ، نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو ، معروف کی تلقین کیے جاؤ ، اور جاہلوں سے نہ الجھو ۔
۔ ( اے حبیبِ مکرّم! ) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں ، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں
اچھے اعمال کی نشاندہی ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں ۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا ۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگذر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول ، تجسس نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگذر کر ۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر ۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے ، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر ۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے ۔ عرف سے مراد نیک ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا ۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے ۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی ۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا ۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا ، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگذر کی عادت رکھ ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر ۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا ۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی ۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا ، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں ۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی ۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے ۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کر لیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو ۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو ، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا ۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں ۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے ۔ شعر ( خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین یعنی درگزر کیا کر ، بھلی بات بتا دیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے ، نادانوں سے ہٹ جا یا کر ، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے ۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے ۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کر لے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀ ) 23- المؤمنون:96 ) بہترین طریق سے دفع کر دو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہو سکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں ۔ اس کے بعد شیطانی و سوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش ۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگذر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں ۔ یہ تینوں حکم جو سورہ اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورہ مومنون میں بھی ہیں اور سورہ حم السجدہ میں بھی ۔ شیطان تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے ۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے ۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے ۔ وہ کلمہ ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) ہے کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں ۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے ۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے ۔ ( بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ ) یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جاہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں ۔