Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
قُلْ لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ يَّنۡتَهُوۡا يُغۡفَرۡ لَهُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَۚ وَاِنۡ يَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿38﴾
آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے! کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں تو ان کے سارے گناہ جو پہلے ہو چکے ہیں سب معاف کر دئے جائیں گے اور اگر اپنی وہی عادت رکھیں گے تو ( کفار ) سابقین کے حق میں قانون نافذ ہو چکا ہے ۔
قل للذين كفروا ان ينتهوا يغفر لهم ما قد سلف و ان يعودوا فقد مضت سنت الاولين
Say to those who have disbelieved [that] if they cease, what has previously occurred will be forgiven for them. But if they return [to hostility] - then the precedent of the former [rebellious] peoples has already taken place.
Aap inn kafiron say keh dijiye! Kay agar yeh log baaz aajayen to inn kay saray gunah jo pehlay ho chukay hain sab moaf ker diye jayen gay aur agar apni wohi aadat rakhen gay to ( kuffaar ) sabeyqeen kay haq mein qanoon nafiz ho chuka hai.
۔ ( اے پیغمبر ) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان سے کہہ دو کہ : اگر وہ باز آجائیں تو پہلے ان سے جو کچھ ہوا ہے اسے معاف کردیا جائے گا ۔ ( ٢٢ ) اور اگر وہ پھر وہی کام کریں گے تو پچھلے لوگوں کے ساتھ جو معاملہ ہوا ، وہ ( ان کے سامنے ) گذر ہی چکا ہے ۔ ( ٢٣ )
تم کافروں سے فرماؤ اگر وہ باز رہے تو جو ہو گزرا وہ انہیں معاف فرمادیا جائے گا ( ف٦٤ ) اور اگر پھر وہی کریں تو اگلوں کا دستور گزر چکا ہے ( ف٦۵ )
اے نبی ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا ، لیکن یہ اگر اسی پچھلی روِش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوچکا وہ سب کو معلوم ہے ۔
آپ کفر کرنے والوں سے فرما دیں: اگر وہ ( اپنے کافرانہ اَفعال سے ) باز آجائیں تو ان کے وہ ( گناہ ) بخش دیئے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں ، اور اگر وہ پھر وہی کچھ کریں گے تو یقیناً اگلوں ( کے عذاب در عذاب ) کا طریقہ گزر چکا ہے ( ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا )
فتنے کے اختتام تک جہاد جاری رکھو کافروں سے کہدے کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائین ، اسلام اور اطاعت قبول کر لین ، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہو چکا ہے سب معاف کر دیا جائے گا ، کفر بھی ، خطا بھی گناہ بھی ۔ حدیث میں ہے جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو الگی پجھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہو گی اور حدیث میں ہے اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ نہ مانین اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی ہالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا ؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے ۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو ۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آیت ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ḍ۝ ) 49- الحجرات:9 ) ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے ومن یقتل مومنا متعمدا الخ ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو ۔ آپ نے فرمایا یہی ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا ۔ اس وقت مسلمان کم تھے ، انہیں کافر گرفتار کر لیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کر لیتے تھے ۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا ۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ مانتے نہیں تو کہا اچھا حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا حضرت عثمان کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے ۔ حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے ، یہ ہیں آپ کی صاحبزادی ، یہ کہتے ہوئے ان کے مکان کی طرف اشارہ کیا ۔ ابن عمر ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے جنگ کرتے تھے ، اس وقت ان کا زور تھا ، ان میں جانا فتنہ تھا ، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن زبیر کے زمانے میں دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔ آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا ، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لئے ہو جانا جاہتے ہو ۔ ذوالسطبین حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو لا الہ الہ اللہ کا قائل ہو ۔ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا ۔ بقول ابن عباس وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے ۔ دین سب اللہ کا ہو جائے یعنی توحید نکھر جائے لا الہ الا اللہ کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے ۔ تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے ، ایک شخص غیرت کیلئے ، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آ جائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کر دو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کر دو ۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ۝ ) 9- التوبہ:5 ) ، یعنی اگر یہ توبہ کرلیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، ان کے راستے نہ روکو ، اور آیت میں ہے کہ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھأای ہیں اور آیت میں ہے کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لئے ہی ہے ۔ ایک صحیح رویت میں ہے کہ حضرت اسامہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آ گیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاہتی ہے تو اس نے جلدی سے لا الہ الا اللہ کہدیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑ گئی اور وہ قتل ہو گیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تو نے اسے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا ؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ بتا کون ہو گا جو قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرے ۔ بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا ؟ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا موالا ، تمہارا مالک ، تمہارا مددگار اور ناصر ہے ۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا ۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔ ابن جریری ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت عروہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کیس امنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں ۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو نبوت دی ، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے ، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے ، آمیں ۔ جب آپ نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہی معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ کی باتین سننے لگیں مگر جب ان کے معوبد ان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے ، آپ کی باتوں کا برا ماننے لگے ، آپ پر سختی کرنے لگے ، اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہوگئے ، اب آپ کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی ۔ پھر سرداران کفر نے آپ میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ۔ کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کر دیا اور محفوظ رکھ لیا ۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگین تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی ۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں ۔ یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بےخوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے ۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آ گئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے ۔ لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہرے رہے ۔ اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہو گئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آ گئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا ۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے ۔ پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچ ھدب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکے شریف واپس چلے آئیں ۔ چنانچہ وہ بھی تھوڑے بہت آ گئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار ملسمان ہوگئے ۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی ۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کر لیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چنانچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا ۔ ہجرت حبش پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا ۔ اب ستر بزرگ سردار ان مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے ۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی ، عہدو پیمان ، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے ۔ اگر کوئی بھی آپ کا آدمی ہمارے ہاں آ جائے تو ہم اس کے امن و امان کے ذمے دار ہیں خود آپ اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ کے ساتھ ہیں ۔ اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کر دیا ۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہوگئے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکے کو خالی کر گئے ۔ یہی ہے وہ جسے اللہ فرماتا ہے ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہو جائے ۔ الحمد اللہ نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔