Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنۡ يُّذۡكَرَ فِيۡهَا اسۡمُهٗ وَسَعٰـى فِىۡ خَرَابِهَا ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ مَا كَانَ لَهُمۡ اَنۡ يَّدۡخُلُوۡهَآ اِلَّا خَآٮِٕفِيۡنَ ؕ لَهُمۡ فِى الدُّنۡيَا خِزۡىٌ وَّلَهُمۡ فِى الۡاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿114﴾
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی کی مسجدوں میں اللہ تعالٰی کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے ۔
و من اظلم ممن منع مسجد الله ان يذكر فيها اسمه و سعى في خرابها اولىك ما كان لهم ان يدخلوها الا خاىفين لهم في الدنيا خزي و لهم في الاخرة عذاب عظيم
And who are more unjust than those who prevent the name of Allah from being mentioned in His mosques and strive toward their destruction. It is not for them to enter them except in fear. For them in this world is disgrace, and they will have in the Hereafter a great punishment.
Uss shaks say barh ker zalim kaun hai jo Allah Taalaa ki masjidon mein Allah Taalaa kay zikar kiye janey ko rokay aur unn ki barbadi ki kosish keray aisay logon ko khof khatay huye hi iss mein jana chahaiye inn kay liye duniya mein bhi ruswaee hai aur aakhirat mein bhi bara azab hai.
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے ، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے ۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان ( مسجدوں ) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ۔ ( ٧٤ ) ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا ۔
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ( ف۲۰۳ ) جو اللہ کی مسجدوں کو روکے ان میں نام خدا لئے جانے سے ( ف۲۰٤ ) اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے ( ف۲۰۵ ) ان کو نہ پہنچتا تھا کہ مسجدوں میں جائیں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے ( ف۲۰٦ ) اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ۔ ( ف۲۰۷ )
اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے در پے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں114 ۔ ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ۔
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے! انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے ، ان کے لئے دنیا میں ( بھی ) ذلّت ہے اور ان کے لئے آخرت میں ( بھی ) بڑا عذاب ہے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :114 یعنی بجائے اس کے کہ عبادت گاہیں اس قسم کے ظالم لوگوں کے قبضہ و اقتدار میں ہوں اور یہ ان کے متولّی ہوں ، ہونا یہ چاہیے کہ خدا پرست اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار ہو اور وہی عبادت گاہوں کے متولّی رہیں ، تاکہ یہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں بھی ، تو انہیں خوف ہو کہ شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ایک لطیف اشارہ کفارِ مکّہ کے اس ظلم کی طرف بھی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو جو اسلام لا چکے تھے ، بیت اللہ میں عبادت کرنے سے روک دیا تھا ۔
نصاریٰ اور یہودی مکافات عمل کا شکار! اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں دوسرا یہ کہ اس سے مراد مشرکین ہیں نصرانی بھی بیت المقدس کی مسجد میں پلیدی ڈال دیتے تھے اور لوگوں کو اس میں نماز ادا کرنے سے روکتے تھے ، بخت نصر نے جب بیت المقدس کی بربادی کے لئے چڑھائی کے تھی تو ان نصرانیوں نے اس کا ساتھ دیا تھا اور مدد کی تھی ، بخت نصر بابل کا رہنے والا مجوسی تھا اور یہودیوں کی دشمنی پر نصرانیوں نے بھی اس کا ساتھ دیا تھا اور اس لئے بھی کہ بنی اسرائیل نے حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کو قتل کر ڈالا تھا اور مشرکین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ والے سال کعبتہ اللہ سے روکا تھا یہاں تک کہ ذی طوی میں آپ کو قربانیاں دینا پڑیں اور مشرکین سے صلح کرنے کے بعد آپ وہیں سے واپس آ گئے حالانکہ یہ امن کی جگہ تھی باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی یہاں کوئی نہیں چھیڑتا تھا اور ان کی کوشش یہی تھی کہ ذکر اللہ اور حج و عمرہ کرنے والی مسلم جماعت کو روک دیں حضرت ابن عباس کا یہی قول ہے ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور کہا ہے کہ مشرکین کعبتہ اللہ کو برباد کرنے کی سعی نہیں کرتے تھے یہ سعی نصاری کی تھی کہ وہ بیت المقدس کی ویرانی کے درپے ہو گئے تھے ۔ لیکن حقیقت میں دوسرا قول زیادہ صحیح ہے ، ابن زید اور حضرت عباس کا قول بھی یہی ہے اور اس بات کو بھی نہ بھولنا چاہئے کہ جب نصرانیوں نے یہودیوں کو بیت المقدس سے روکا تھا اس وقت یہودی بھی محض بےدین ہو چکے تھے ان پر تو حضرت داؤد اور حضرت عیسیٰ بن مریم کی زبانی لعنتیں نازل ہو چکی تھیں وہ نافرمان اور حد سے متجاوز ہو چکے تھے اور نصرانی حضرت مسیح کے دین پر تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد مشرکین مکہ ہیں اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اوپر یہود و نصاریٰ کی مذمت بیان ہوئی تھی اور یہاں مشرکین عرب کی اس بدخصلت کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کو مسجد الحرام سے روکا مکہ سے نکالا پھر حج وغیرہ سے بھی روک دیا ۔ امام ابن جریر کا یہ فرمان کہ مکہ والے بیت اللہ کی ویرانی میں کوشاں نہ تھے اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو وہاں سے روکنے اور نکال دینے اور بیت اللہ میں بت بٹھا دینے سے بڑھ کر اس کی ویرانی کیا ہو سکتی ہے؟ خود قرآن میں موجود ہے آیت ( وَهُمْ يَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) 8 ۔ الانفال:34 ) اور جگہ فرمایا آیت ( مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ) 9 ۔ التوبہ:17 ) یعنی یہ لوگ مسجد حرام سے روکتے ہیں مشرکوں سے اللہ کی مسجدیں آباد نہیں ہو سکتیں جو اپنے کفر کے خود گواہ ہیں جن کے اعمال غارت ہیں اور جو ہمیشہ کے لئے جہنمی ہیں مسجدوں کی آبادی ان لوگوں سے ہوتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے اور نماز و زکوٰۃ کے پابند اور صرف اللہ ہی سے ڈرنے والے ہیں یہی لوگ راہ راست والے ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( هُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَصَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ ) 48 ۔ الفتح:25 ) ان لوگوں نے بھی کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے بھی روکا اور قربانیوں کو ان کے ذبح ہونے کی جگہ تک نہ پہنچنے دیا اگر ہمیں ان مومن مردوں عورتوں کا خیال نہ ہوتا جو اپنی ضعیفی اور کم قوتی کے باعث مکہ سے نہیں نکل سکے ۔ جنہیں تم جانتے بھی نہیں ہو تو ہم تمہیں ان سے لڑ کر ان کے غارت کر دینے کا حکم دیتے لیکن یہ بےگناہ مسلمان پیس نہ دیئے جائیں اس لئے ہم نے سردست یہ حکم نہیں دیا لیکن یہ کفار اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو وہ وقت دور نہیں جب ان پر ہمارے درد ناک عذاب برس پڑیں ۔ پس جب وہ مسلمان ہستیں جن سے مسجدوں کی آبادی حقیقی معنی میں ہے وہ ہی روک دیئے گئے تو مسجدوں کے اجاڑنے میں کونسی کمی رہ گئی؟ مسجدوں کی آبادی صرف ظاہری زیب و زینت رنگ و روغن سے نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذکر اللہ ہونا اس میں شریعت کا قائم رہنا اور شرک اور ظاہری میل کچیل سے پاک رکھنا یہ ان کی حقیقی آبادی ہے پھر فرمایا کہ انہیں لائق نہیں کہ بےخوفی اور بےباکی کے ساتھ بیت اللہ میں نہ آنے دو ہم تمہیں غالب کر دیں گے اس وقت یہی کرنا چنانچہ جب مکہ فتح ہو گیا اگلے سال ۹ہجری اعلان کرا دیا کہ اس سال کے بعد حج میں کوئی مشرک نہ آنے پائے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے جن لوگوں کے درمیان صلح کی کوئی مدت مقرر ہوئی ہے وہ قائم ہے یہ حکم دراصل تصدیق اور عمل ہے اس آیت پر آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ) 9 ۔ التوبہ:28 ) یعنی مشرک لوگ نجس ہیں اس سال کے بعد انہیں مسجد حرام میں نہ آنے دو اور یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ مشرک کانپتے ہوئے اور خوف زدہ مسجد میں آئیں لیکن برخلاف اس کے الٹے یہ مسلمانوں کو روک رہے ہیں یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو بشارت دیتا ہے کہ عنقریب میں تمہیں غلبہ دوں گا اور یہ مشرک اس مسجد کی طرف رخ کرنے سے بھی کپکپانے لگیں گے چنانچہ یہی ہوا اور حضور علیہ السلام نے وصیت کی کہ جزیرہ عرب میں دو دین باقی نہ رہنے پائیں اور یہود و نصاریٰ کو وہاں سے نکال دیا جائے الحمد اللہ کہ اس امت کے بزرگوں نے اس وصیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل بھی کر دکھایا اس سے مسجدوں کی فضیلت اور بزرگی بھی ثابت ہوئی بالخصوص اس جگہ کی اور مسجد کی جہاں سب سے بڑے اور کل جن وانس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے ۔ ان کافر پر دنیا کی رسوائی بھی آئی ، جس طرح انہوں نے مسلمانوں کو روکا جلا وطن کیا ٹھیک اس کا پورا بدلہ انہیں ملا یہ بھی روکے گئے ، جلا وطن کئے گئے اور ابھی اخروی عذاب باقی ہیں کیونکہ انہوں نے بیت اللہ شریف کی حرمت توڑی وہاں بت بٹھائے غیر اللہ سے دعائیں اور مناجاتیں شروع کر دیں ۔ ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا وغیرہ اور اگر اس سے مراد نصرانی لئے جائیں تو بھی ظاہر ہے کہ انہوں نے بھی بیت المقدس کی بےحرمتی کی تھی ، بالخصوص اس صخرہ ( پتھر ) کی جس کی طرف یہود نماز پڑھتے تھے ، اسی طرح جب یہودیوں نے بھی نصرانیوں سے بہت زیادہ ہتک کی اور تو ان پر ذلت بھی اس وجہ سے زیادہ نازل ہوئی دنیا کی رسوائی سے مراد امام مہدی کے زمانہ کی رسوائی بھی ہے اور جزیہ کی ادائیگی بھی ہے حدیث شریف میں ایک دعا وارد ہوئی ہے ۔ دعا ( اللھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا واجرنا من خزی الدنیا و عذاب الاخرۃ ) اے اللہ تو ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے نجات دے ۔ یہ حدیث حسن ہے مسند احمد میں موجود ہے صحاح ستہ میں نہیں اس کے راوی بشر بن ارطاۃ صحابی ہیں ۔ ان سے ایک تو یہ حدیث مروی ہے دوسری وہ حدیث مروی ہے جس میں ہے کہ غزوے اور جنگ کے موقعہ پر ہاتھ نہ کاٹے جائیں ۔