Surah

Information

Surah # 8 | Verses: 75 | Ruku: 10 | Sajdah: 0 | Chronological # 88 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 30-36 from Makkah
مَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗۤ اَسۡرٰى حَتّٰى يُثۡخِنَ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ تُرِيۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡيَا ۖ  وَاللّٰهُ يُرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿67﴾
نبی کے ہاتھ میں قیدی نہیں چاہییں جب تک کہ ملک میں اچھی خون ریزی کی جنگ نہ ہو جائے ۔ تم تو دنیا کے مال چاہتے ہو اور اللہ کا ارادہ آخرت کا ہے اور اللہ زور آور باحکمت ہے ۔
ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض تريدون عرض الدنيا و الله يريد الاخرة و الله عزيز حكيم
It is not for a prophet to have captives [of war] until he inflicts a massacre [upon Allah 's enemies] in the land. Some Muslims desire the commodities of this world, but Allah desires [for you] the Hereafter. And Allah is Exalted in Might and Wise.
Nabi kay haath mein qaidi nahi chahaiye jabtak kay mulk mein achi khoonrezi ki jang na hojaye. Tum to duniya kay maal chahatay ho aur Allah ka irada aakhirat ka hai aur Allah zor aawar ba hikmat hai.
یہ بات کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی رہیں ( ٤٧ ) جب تک کہ وہ زمین میں ( دشمنوں کا ) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو ( جس سے ان کا رعب پوری طرح ٹوٹ جائے ) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ ( تمہارے لیے ) آخرت ( کی بھلائی ) چاہتا ہے اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے ، صاحب حکمت بھی ۔
کسی نبی کو لائئق نہیں کہ کافروں کو زندہ قید کرلے جب تک زمین میں ان کا خون خوب نہ بہائے ( ف۱۲٤ ) تم لوگ دنیا کا مال چاہتے ہو ( ف۱۲۵ ) اور اللہ آخرت چاہتا ہے ( ف۱۲٦ ) اور اللہ غالب حکمت والا ہے
کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے ۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے ، اور اللہ غالب اور حکیم ہے ۔
کسی نبی کو یہ سزاوار نہیں کہ اس کے لئے ( کافر ) قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں ان ( حربی کافروں ) کا اچھی طرح خون نہ بہا لے ۔ تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو ، اور اللہ آخرت کی ( بھلائی ) چاہتا ہے ، اور اللہ خوب غالب حکمت والا ہے
اسیران بدر اور مشورہ مسند امام احمد میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ اللہ نے انہیں تمہارے قبضے میں دے دیا ہے بتاؤ کیا ارادہ ہے؟ حضرت عمر بن خطاب نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں آپ نے ان سے منہ پھیر لیا پھر فرمایا اللہ نے تمہارے بس میں کر دیا ہے یہ کل تک تمہارے بھائی بند ہی تھے ۔ پھر حضرت عمر نے کھڑے ہو کر اپنا جواب دوہرایا آپ نے پھر منہ پھیر لیا اور پھر وہی فرمایا اب کی دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رائے میں تو آپ ان کی خطا سے درگزر فرما لیجئے اور انہیں فدیہ لے کر آزاد کیجئے اب آپ کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے عفو عام کر دیا اور فدیہ لے کر سب کو آزاد کر دیا اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔ اسی صورت کے شروع میں ابن عباس کی روایت گذر چکی ہے صحیح مسلم میں بھی اسی جیسی حدیث ہے کہ بدر کے دن آپ نے دریافت فرمایا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ہیں ، آپ والے ہیں انہیں زندہ چھوڑا جائے ان سے توبہ کرالی جائے گی عجب کہ کل اللہ کی ان پر مہربانی ہو جائے لیکن حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دینے والے ہیں حکم دیجئے کہ ان کی گردنیں ماری جائیں ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میدان میں درخت بکثرت ہیں آگ لگوا دیجئے اور انہیں جلا دیجئے آپ خاموش ہو رہے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر تشریف لے گئے لوگوں میں بھی ان تینوں بزرگوں کی رائے کا ساتھ دینے والے ہوگئے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور فرمانے لگے بعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں ۔ اے ابو بکر تمہاری مثال آنحضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے کہ اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ میرے تابعدار تو میرے ہیں ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اور بخشش کے ماتحت ہیں اور تمہاری مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جو کہیں گے یا اللہ اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے اور اے عمر تمہاری مثال حضرت نوح علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بددعا کی کہ یا اللہ زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا باقی نہ رکھ ۔ سنو تمہیں اس وقت احتیاج ہے ان قیدیوں میں سے کوئی بھی بغیر فدیئے کے رہا نہ ہو ورنہ ان کی گردنیں ماری جائیں ۔ اس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن بیضا کو اس سے مخصوص کر لیا جائے اس لیے وہ اسلام کا ذکر کیا کرتا تھا اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے واللہ میں سارا دن خوف زدہ رہا کہ کہیں مجھ پر آسمان سے پتھر نہ برسائے جائیں یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مگر سہیل بن بیضا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے یہ حدیث ترمذی مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔ ان قیدیوں میں عباس بھی تھے انہیں ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا انصار کا خیال تھا کہ اسے قتل کر دیں آپ کو بھی یہ حال معلوم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو مجھے اس خیال سے نیند نہیں آئی ۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں انصار کے پاس جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی حضرت عمر انصار کے پاس آئے اور کہا عباس کو چھوڑ دو انہوں نے جواب دیا واللہ ہم اسے نہ چھوریں آپ نے فرمایا گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی اسی میں ہو؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اب انہیں لے جائیں ہم نے بخوشی چھوڑا ۔ اب حضرت عمر نے ان سے کہا کہ عباس اب ملسمان ہو جاؤ واللہ تمہارے اسلام لانے سے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے بھی زیادہ خوشی ہوگی اس لیے کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اسلام لانے سے خوش ہو جائیں گے ان قیدیوں کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر سے مشورہ لیا تو آپ نے تو فرمایا یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں انہیں چھوڑ دیجئے حضرت عمر سے جب مشورہ لیا تو آپ نے جواب دیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے ۔ آخر آپ نے فدیہ لے کر انہیں آزاد کیا ۔ حضرت علی فرماتے ہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اپنے صحابہ کو اختیار دیجئے کہ وہ ان دو باتوں میں سے ایک کو پسند کرلیں اگر چاہیں تو فدیہ لے لیں اور اگر چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کر دیں لیکن یہ یاد رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں اگلے سال ان میں اتنے ہی شہید ہوں گے ۔ صحابہ نے کہا ہمیں یہ منطور ہے اور ہم فدیہ لے کر چھوڑیں گے ( ترمذی نسائی وغیرہ ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔ ان بدری قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے صحابیو اگر چاہو تو انہیں قتل کر دو اور اگر چاہو ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں رہا کردو لیکن اس صورت میں اتنے ہی آدمی تمہارے شہید کئے جائیں گے ۔ پس ان ستر شہیدوں میں سب سے آخر حضرت ثاب بین قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے رضی اللہ عنہ ، یہ روایت حضرت عبیدہ سے مرسلا بھی مروی ہے واللہ اعلم ۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کی کتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت سے حلال نہ لکھا ہوا ہوتا اور جب تک ہم بیان نہ فرما دیں تب تک عذاب نہیں کیا کرتے ایسادستور ہمارا نہ ہوتا تو جو مال فدیہ تم نے لیا اس پر تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا اسی طرح پہلے سے اللہ طے کر چکا ہے کہ کسی بدری صحابی کو وہ عذاب نہیں کرے گا ۔ ان کے لیے مغفرت کی تحریر ہو چکی ہے ۔ ام الکتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت کی حلت لکھی جا چکی ہے ۔ پس مال غنیمت تمہارے لیے حلال طیب ہے شوق سے کھاؤ پیو اور اپنے کام میں لاؤ ۔ پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اس امت کے لیے یہ حلال ہے یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور اسی کی شہادت بخاری مسلم کی حدیث سے ملتی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کے فاصلے تک میری مدد رعب سے کی گئی ۔ میرے لیے پوری زمین مسجد پاکی اور نماز کی جگہ بنا دی گئی مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں ، مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی ہر نبی خاصتہ اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا لیکن میں عام لوگوں کی طرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کسی سیاہ سر والے انسان کے لیے میرے سوا غنیمت حلال نہیں کی گئی ۔ پس صحابہ نے ان بدری قیدیوں سے فدیہ لیا اور ابو داؤد میں ہے ہر ایک سے چار سو کی رقم بطور تاوان جنگ کے وصول کی گئی ۔ پس جمہور علماء کرام کا مذہب یہ ہے کہ امام وقت کو اختیار ہے کہ اگر چاہے قیدی کفار کو قتل کر دے ، جیسے بنو قریضہ کے قدیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ اگر چاہے بدلے کا مال لے کر انہیں چھوڑ دے جیسے کہ بدری قیدیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے جیسے کہ حضور اللہ علیہ والہ وسلم نے قبیلہ سلمہ بن اکوع کی ایک عورت اس کی لڑکی مشرکوں کے پاس جو مسلمان قیدی تھے ان کے بدلے میں دیا اور اگر چاہے انہیں غلام بنا کر رکھے ۔ یہی مذہب امام شافعی کا اور علماء کرام کی ایک جماعت کا ہے ۔ گو اوروں نے اس کا خلاف بھی کیا ہے یہاں اسکی تفصیل کی جگہ نہیں ۔