Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖۤ اِلَى النَّاسِ يَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَكۡبَرِ اَنَّ اللّٰهَ بَرِىۡۤءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ ‌ۙ  وَ رَسُوۡلُهٗ‌ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ ‌ۚ وَاِنۡ تَوَلَّيۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّكُمۡ غَيۡرُ مُعۡجِزِى اللّٰهِ‌ ؕ وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍۙ‏ ﴿3﴾
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو بڑے حج کے دن صاف اطلاع ہے کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی ، اگر اب بھی تم توبہ کر لو تو تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم روگردانی کرو تو جان لو کہ تم اللہ کو ہرا نہیں سکتے اور کافروں کو دکھ کی مار کی خبر پہنچا دیجئے ۔
و اذان من الله و رسوله الى الناس يوم الحج الاكبر ان الله بريء من المشركين و رسوله فان تبتم فهو خير لكم و ان توليتم فاعلموا انكم غير معجزي الله و بشر الذين كفروا بعذاب اليم
And [it is] an announcement from Allah and His Messenger to the people on the day of the greater pilgrimage that Allah is disassociated from the disbelievers, and [so is] His Messenger. So if you repent, that is best for you; but if you turn away - then know that you will not cause failure to Allah . And give tidings to those who disbelieve of a painful punishment.
Allah aur uss kay rasool ki taraf say logon ko baray hajj kay din saaf itlaa hai kay Allah mushrikon say beyzaar hai aur uss ka rasool bhi agar abb bhi tum tauba kerlo to tumharay haq mein behtar hai aur agar tum roo gardaani kero to jaan lo kay tum Allah ko hara nahi saktay. Aur kafiron ko dukh ki maar ki khabar phonca dijiye.
اور حج اکبر کے دن ( ٢ ) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمام انسانوں کے لیے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ بھی مشرکین سے دست بردار ہوچکا ہے ، اور اس کا رسول بھی ۔ اب ( اے مشرکو ) اگر تم توبہ کرلو تو یہ تمہارے حق میں بہت بہتر ہوگا ، اور اگر تم نے ( اب بھی ) منہ موڑے رکھا تو یاد رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے ، اور تمام کافروں کو ایک دکھ دینے والے عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔
اور منادی پکار دیتا اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے سب لوگوں میں بڑے حج کے دن ( ف۵ ) کہ اللہ بیزار ہے ، مشرکوں سے اور اس کا رسول تو اگر تم توبہ کرو ( ف٦ ) تو تمہارا بھلا ہے اور اگر منہ پھیرو ( ف۷ ) تو جان لو کہ اللہ کو نہ تھکا سکو گے ( ف۸ ) اور کافروں کو خوشخبری سناؤ دردناک عذاب کی ،
اطلاعِ عام ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حجِ اکبر کے دن4 تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمّہ ہے اور اس کا رسول بھی ۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو ۔ اور اے نبی ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سنا دو ،
۔ ( یہ آیات ) اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جانب سے تمام لوگوں کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ ( عام ) ہے کہ اللہ مشرکوں سے بے زار ہے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ( ان سے بری الذمّہ ہے ) ، پس ( اے مشرکو! ) اگر تم توبہ کر لو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ تم ہرگز اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے ، اور ( اے حبیب! ) آپ کافروں کو دردناک عذاب کی خبر سنا دیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :4 یعنی ۱۰ ذی الحجہ جسے یوم النحر کہتے ہیں ۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دین ہے؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے ۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر ۔ ” یہ حج اکبر کا دن ہے“ ۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے ۔ اہل عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقررہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے ، وہ حج اکبر کہلاتا ہے ۔
حج اکبر کے دن اعلان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عام اعلان ہے اور ہے بھی بڑے حج کے دن ۔ یعنی عید قرباں کو جو حج کے تمام دنوں سے بڑا اور افضل دن ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ بیزار اور الگ ہے اگر اب بھی تم گمراہی اور شرک و برائی چھوڑ دو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے توبہ کر لو نیک بن جاؤ اسلام قبول کر لو ، شرک و کفر چھوڑ دو اور اگر تم نے نہ مانا اپنی ضلالت پر قائم رہے تو تم نہ اب اللہ کے قبضے سے باہر ہو نہ آئندہ کسی وقت اللہ کو دبا سکتے ہو وہ تم پر قادر ہے تمہاری چوٹیاں اس کے ہاتھ میں ہیں وہ کافروں کو دنیا میں بھی سزا کرے گا اور آخرت میں بھی عذاب کرے گا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قربانی والے دن ان لوگوں میں جو اعلان کے لیے بھیجے گئے تھے بھیجا ۔ ہم نے منادی کر دی کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کوئی شخص ننگا ہو کر نہ کرے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بھیجا کہ سورہ براۃ کا اعلان کر دیں پس آپ نے بھی منٰی میں ہمارے ساتھ عید کے دن انہیں احکام کی منادی کی ۔ حج اکبر کا دن بقرہ عید کا دن ہے ۔ کیونکہ لوگ حج اصغر بولا کرتے تھے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان کے بعد حجتہ الوداع میں ایک بھی مشرک حج کو نہیں آیا تھا ۔ حنین کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا تھا پھر اس سال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو منادی کے لیے روانہ فرمایا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ برات کا اعلان کر دیں امیر حج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنے کے بعد بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی رہے رضی اللہ عنہما ۔ لیکن اس روایت میں غربت ہے عمرہ جعرانہ والے سال امیر حج حضرت عتاب بن اسید تھے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تو سنہ ٩ ھ میں امیر حج تھے ۔ مسند کی روایت میں ہے حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں تھا ہم نے پکار پکار کر منادی کر دی کہ جنت میں صرف ایماندار ہی جائیں گے بیت اللہ کا طواف آئندہ سے کوئی شخص عریانی کی حالت میں نہیں کر سکے گا ۔ جن کے ساتھ ہمارے عہد و پیمان ہیں ان کی مدت آج سے چار ماہ کی ہے ، اس مدت کے گذر جانے کے بعد اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں سے بری الذمہ ہیں اس سال کے بعد کسی کافر کو بیت اللہ کے حج کی اجات نہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔ یہ منادی کرتے کرتے مرا گلا پڑ گیا ۔ حضرت علی کی آواز بیٹھ جانے کے بعد میں نے منادی شروع کر دی تھی ۔ ایک روایت میں ہے جس سے عہد ہے اس کی مدت وہی ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ یہ جملہ کسی راوی کے وہم کی وجہ سے نہ ہو ۔ کیونکہ مدت کے بارے میں اس کے خلاف بہت سی روایتیں ہیں ۔ مسند میں ہے کہ براۃ کا اعلان کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا وہ ذوالحلیفہ پہنچے ہوں گے جو آپ نے فرمایا کہ یہ اعلان تو یا میں خود کروں گا یا میرے اہل بیت میں سے کوئی شخص کرے گا پھر آپ نے حضرت علی کو بھیجا حضرت علی فرماتے ہیں سورہ برات کی دس آیتیں جب اتریں آپ نے حضرت ابو بکر کو بلا کر فرمایا انہیں لے جاؤ اور اہل مکہ کو سناؤ پھر مجھے یاد فرمایا اور ارشاد ہوا کہ تم جاؤ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے تم ملو جہاں وہ ملیں ان سے کتاب لے لینا اور مکہ والوں کے پاس جاکر انہیں پڑھ سنانا میں چلا جحفہ میں جا کر ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے کتاب لے لی آپ واپس لوٹے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میرے بارے میں کوئی آیتیں نازل ہوئی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا کہ یا تو یہ پیغام خود آپ پہنچائیں یا اور کوئی شخص جو آپ میں سے ہو ۔ اس سند میں ضعف ہے اور اس سے یہ مراد بھی نہیں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت لوٹ آئے نہیں بلکہ آپ نے اپنی سرداری میں وہ حج کرایا حج سے فارغ ہو کر پھر واپس آئے جیسے کہ اور روایتوں میں صراحتاً مروی ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام رسانی کا ذکر کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عذر پیش کیا کہ میں عمر کے لحاظ سے اور تقریر کے لحاظ سے اپنے میں کمی پاتا ہوں آپ نے فرمایا لیکن ضرورت اس کی ہے کہ اسے یا تو میں آپ پہنچاؤں یا تو پہنچائے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہی ہے تو لیجئے میں جاتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اللہ تیری زبان کو ثابت رکھے اور تیرے دل کو ہدایت دے ۔ پھر اپناہاتھ ان کے منہ پر رکھا ۔ لوگوں نے حضرت علی سے پوچھا کہ حج کے موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا بات پہنچانے بھیجا تھا ؟ آپ نے وہی اوپر والی چاروں باتیں بیان فرمائیں ۔ مسند وغیرہ میں یہ روایت کسی طریق سے آئی ہے اس میں لفظ یہ ہیں کہ جن سے معاہدہ ہے وہ جس مدت تک ہے اسی تک رہے گا اور حدیث میں ہے کہ آپ سے لوگوں نے کہا کہ آپ حج میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو بھیج چکے ہیں کاش کہ یہ پیغام بھی انہیں پہنچا دیتے آپ نے تو حج کا انتظام کیا اور عید والے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ احکام پہنچائے ۔ پھر یہ دونوں آپ کے پاس آئے پس مشرکین میں سے جن سے عام عہد تھا ان کے لیے تو چار ماہ کی مدت ہو گئی ۔ باقی جس سے جتنا عہد تھا وہ بدستور رہا ۔ اور روایت میں ہے کہ ابو بکر صدیق کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر حج بنا کر بھیجا تھا اور مجھے ان کے پاس چالیس آیتیں سورۃ برات کی دے کر بھیجا تھا آپ نے عرفات کے میدان میں عرفہ کے دن لوگوں کو خطبہ دیا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا اُٹھئے اور سرکار رسالت مآب کا پیغام لوگوں کو سنا دیجئے ۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر ان چالیس آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ پھر لوٹ کر منٰی میں آکر جمرہ پر کنکریاں پھینکیں اونٹ نحر کیا سر منڈوایا پھر مجھے معلوم ہوا کہ سب حاجی اس خطبے کے وقت موجود تھے اس لیے میں نے ڈیروں میں اور خیموں میں اور پڑاؤ میں جا جا کر منادی شروع کر دی میرا خیال ہے کہ شاید اس وجہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا یہ دسویں تاریخ کا ذکر ہے حالانکہ اصل پیغام نویں کو عرفہ کے دن پہنچا دیا گیا تھا ۔ ابو اسحق کہتے ہیں میں نے ابو جحیفہ سے پوچھا کہ حج اکبر کا کونسا دن ہے؟ آپ نے فرمایا عرفے کا دن ۔ میں نے کہا یہ آپ اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یاصحابہ رضی اللہ عنہم سے سنا ہوا ۔ فرمایا سب کچھ یہی ہے ۔ عطاء بھی یہی فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی یہی فرما کر فرماتے ہیں پس اس دن کو کوئی روزہ نہ رکھے ۔ راوی کہتا ہے میں نے اپنے باپ کے بعد حج کیا مدینے پہنچا اور پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ لوگوں نے کہا حضرت سعید بن مسیب ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے مدینے والوں سے پوچھا کہ یہاں آج کل سب سے افضل کون ہیں؟ تو انہوں نے آپ کا نام لیا تو میں آپ کے پاس آیا ہوں یہ فرمائیے کہ عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں تمہیں اپنے سے ایک سو درجے بہترین شخص کو بتاؤں وہ عمرو بن عمر ہیں وہ اس روزے سے منع فرماتے تھے اور اسی دن کو حج اکبر فرماتے تھے ۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ ) اور بھی بہت سے بزرگوں نے یہی فرمایا ہے ۔ کہ حج اکبر سے مراد عرفے کا دن ہے ایک مرسل حدیث میں بھی ہے آپ نے اپنے عرفے کے خطبے میں فرمایا یہی حج اکبر کا دن ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد بقرہ عید کا دن ۔ حضرت علی یہی فرماتے ہیں ۔ ایک مرتبہ حضرت علی بقر عید والے دن اپنے سفید خچر پر سوار جا رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کی لگام تھام لی اور یہی پوچھا آپ نے فرمایا حج اکبر کا دن آج ہی کا دن ہے لگام چھوڑ دے ۔ عبداللہ بن ابی اوفی کا قول بھی یہی ہے ۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اپنے عید کے خطبے میں فرمایا آج ہی کا دن یوم الاضحی ہے آج ہی کا دن یوم النحر ہے ۔ آج ہی کا دن حج اکبر کا دن ہے ۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور بھی بہت سے لوگ اسی طرف گئے ہیں کہ حج اکبر بقرہ عید کا دن ہے ۔ امام ابن جریر کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ صحیح بخاری کے حوالے سے پہلے حدیث گذر چکی ہے ۔ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منادی کرنے والوں کو منٰی میں عید کے دن بھیجا تھا ۔ ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع میں جمروں کے پاس دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ٹھہرے اور فرمایا یہی دن حج اکبر کا دن ہے اور روایت میں ہے کہ آپ کی اونٹنی سرخرنگ کی تھی آپ نے لوگوں سے پوچھا کہ جانتے بھی ہو؟ آج کیا دن ہے؟ لوگوں نے کہا قربانی کا دن ہے ۔ آپ نے فرمایا سچ ہے یہی دن حج اکبر کا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اونٹنی پر سوار تھے لوگ اس کی نکیل تھامے ہوئے تھے ۔ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ کونسا دن ہے جانتے ہو؟ ہم اس خیال سے خاموش ہوگئے کہ شاید آپ اس کا کوئی اور ہی نام بتائیں ۔ آپ نے فرمایا یہ حج اکبر کا دن نہیں؟ اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے آپ کے سوال پر جواب دیا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے ۔ سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ عید کے بعد کا دن ہے ۔ مجاہد کہتے ہیں حج کے سب دنوں کا یہی نام ہے ۔ سفیان بھی یہی کہتے ہیں کہ جیسے یوم جمل یوم صفین ان لڑائیوں کے تمام دنوں کا نام ہے ایسے ہی یہ بھی ہے ۔ حسن بصری سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا حاصل یہ تو اس سال تھا جس سال حج کے امیر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے ۔ ابن سیرین اسی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں یہی وہ دن تھا جس میں رسول اللہ کا اور عام لوگوں کا حج ہوا ۔