Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
كَيۡفَ وَاِنۡ يَّظۡهَرُوۡا عَلَيۡكُمۡ لَا يَرۡقُبُوۡا فِيۡكُمۡ اِلًّا وَّلَا ذِمَّةً‌ ؕ يُرۡضُوۡنَـكُمۡ بِاَفۡوَاهِهِمۡ وَتَاۡبٰى قُلُوۡبُهُمۡ‌ۚ وَاَكۡثَرُهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‌ۚ‏ ﴿8﴾
ان کے وعدوں کا کیا اعتبار ان کا اگر تم پر غلبہ ہو جائے تو نہ یہ قرابت داری کا خیال کریں نہ عہد و پیمان کا اپنی زبانوں سے تمہیں پرچا رہے ہیں لیکن ان کے دل نہیں مانتے ان میں سے اکثر تو فاسق ہیں ۔
كيف و ان يظهروا عليكم لا يرقبوا فيكم الا و لا ذمة يرضونكم بافواههم و تابى قلوبهم و اكثرهم فسقون
How [can there be a treaty] while, if they gain dominance over you, they do not observe concerning you any pact of kinship or covenant of protection? They satisfy you with their mouths, but their hearts refuse [compliance], and most of them are defiantly disobedient.
Unn kay wadon ka kiya aitbaar unn ka agar tum per ghalba hojaye to na yeh qarabat daari ka khayal keren na ehad-o-paymaan ka apni zabanon say to tumhen parcha rahey hain lekin unn kay dil nahi mantay inn mein say aksar to fasiq hain.
۔ ( لیکن دوسرے مشرکین کے ساتھ ) کیسے معاہدہ برقرار رہ سکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی تم پر غالب آجائیں تو تمہارے معاملے میں نہ کسی رشتہ داری کا خیال کریں ، اور نہ کسی معاہدے کا ؟ یہ تمہیں اپنی زبانی باتوں سے راضی کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ ان کے دل انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں ۔
بھلا کیونکر ( ف۱۹ ) ان کا حال تو یہ ہے کہ تم پر قابو پائیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا ، اپنے منہ سے تمہیں راضی کرتے ہیں ( ف۲۰ ) اور ان کے دلوں میں انکار ہے اور ان میں اکثر بےحکم ہیں ( ف۲۱ )
مگر ان کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا ۔ وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دِل ان کے انکار کرتے ہیں 10 اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ 11
۔ ( بھلا ان سے عہد کی پاسداری کی توقع ) کیونکر ہو ، ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پا جائیں تو نہ تمہارے حق میں کسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی عہد کا ، وہ تمہیں اپنے مونہہ سے تو راضی رکھتے ہیں اور ان کے دل ( ان باتوں سے ) انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عہد شکن ہیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :10 یعنی بظاہر تو وہ صلح کی شرطیں طے کرتے ہیں مگر دل میں بدعہدی کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کا ثبوت تجربے سے اس طرح ملتا ہے کہ جب کبھی انہوں نے معاہدہ کیا توڑنے ہی کے لیے کیا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :11 یعنی ایسے لوگ ہیں جنہیں نہ اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ اخلاق کی پابندیوں کے توڑنے میں کوئی باک ۔
کافروں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا ۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں ۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں ۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں ۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا ۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے ۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے ۔