Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ بِالۡحَـقِّ بَشِيۡرًا وَّنَذِيۡرًا ۙ‌ وَّلَا تُسۡـَٔـلُ عَنۡ اَصۡحٰبِ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿119﴾
ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور جہنمیوں کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں ہوگی ۔
انا ارسلنك بالحق بشيرا و نذيرا و لا تسل عن اصحب الجحيم
Indeed, We have sent you, [O Muhammad], with the truth as a bringer of good tidings and a warner, and you will not be asked about the companions of Hellfire.
Hum ney aap ko haq kay sath khushkhabri denay wala aur daraney wala bana ker bheja hai aur jahannumiyon kay baray mein aap say pursish nahi hogi.
۔ ( اے پیغمبر ) بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم ( جنت کی ) خوشخبری دو اور ( جہنم سے ) ڈراؤ ) اور جو لوگ ( اپنی مرضی سے ) جہنم ( کا راستہ ) اختیار کرچکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی ۔
بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا ۔ ( ف۲۱۷ )
﴿اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہو گی کہ ﴾ ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ۔ 120 اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں ، ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو ۔
۔ ( اے محبوبِ مکرّم! ) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گی
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :120 یعنی دُوسری نشانیوں کا کیا ذکر ، نمایاں ترین نشانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شخصیّت ہے ۔ آپ ؐ کے نبوّت سے پہلے کے حالات ، اور اس قوم اور ملک کے حالات جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے ، اور وہ حالات جن میں آپ نے پرورش پائی اور ٤۰ برس زندگی بسر کی ، اور پھر وہ عظیم الشان کارنامہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے بعد آپ نے انجام دیا ، یہ سب کچھ ایک ایسی روشن نشانی ہے جس کے بعد کسی اور نشانی کی حاجت نہیں رہتی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کی حد تک مسؤل ہیں حدیث میں ہے خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے لا تسئل کی دسری قرأت ما تسئل بھی ہے اور ابن مسعود کی قرأت میں لن تسئل بھی ہے یعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گا جیسے فرمایا آیت ( فانما علیک البلغ وعلینا الحلساب یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21؀ۭ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ 22؀ۙ ) 88 ۔ الغاشیہ:21 ) تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں اور جگہ فرمایا آیت ( نحن اعلم بما یقولون ) الخ ہم ان کی باتیں بخوبی جانتے ہیں تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو تو قرآن کی نصیحتیں انہیں سنا دو جو قیامت سے ڈرتے ہوں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ایک قرأت اس کی ولا تسائل بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی مجھ سے کچھ نہ پوچھو عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا ۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا ۔ پھر آخری دم تک آپ نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا ابن جریر نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے قرطبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو ، تذکرہ میں قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے واللہ اعلم ۔ ابن جریر کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، ابن جریر نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہ دیا ؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لئے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہو گئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتا دیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہو چکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت عطا بن یسار نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت و ثنا توراۃ میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں وہی توراۃ میں بھی ہیں ، توراۃ میں بھی ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بد زبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ لا الہ الہ اللہ کا اقرار نہ کرلیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہو جائیں بخاری کی کتاب الیسوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر حضرت کعب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا ۔