Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَلَنۡ تَرۡضٰى عَنۡكَ الۡيَهُوۡدُ وَلَا النَّصٰرٰى حَتّٰى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمۡ‌ؕ قُلۡ اِنَّ هُدَى اللّٰهِ هُوَ الۡهُدٰى‌ؕ وَلَٮِٕنِ اتَّبَعۡتَ اَهۡوَآءَهُمۡ بَعۡدَ الَّذِىۡ جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ‌ۙ مَا لَـكَ مِنَ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍؔ‏ ﴿120﴾
آپ سے یہودی اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک کہ آپ ان کے مذہب کے تابع نہ بن جائیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کی ہدایت ہی ہدایت ہے اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آ جانے کے ، پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو اللہ کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار ۔
و لن ترضى عنك اليهود و لا النصرى حتى تتبع ملتهم قل ان هدى الله هو الهدى و لىن اتبعت اهواءهم بعد الذي جاءك من العلم ما لك من الله من ولي و لا نصير
And never will the Jews or the Christians approve of you until you follow their religion. Say, "Indeed, the guidance of Allah is the [only] guidance." If you were to follow their desires after what has come to you of knowledge, you would have against Allah no protector or helper.
Aap say yahud-o-nasaaraa hergiz razi nahi hongay jab tak kay aap inn kay mazaahib kay tabey na bann jayen aap keh dijiye kay Allah ki hidayat hi hidayat hai aur agar aap ney apney pass ba wajood ilm aajaney kay phir inn ki khuwaishon ki pairwee ki to Allah kay pass aap ka na to koi wali hoga aur na madadgar.
اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے ۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے ۔ اور تمہارے پاس ( وحی کے ذریعے ) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار ۔ ( ٧٧ )
اور ہرگز تم سے یہود اور نصاری ٰ راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو ( ف۲۱۸ ) تم فرمادو اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے ( ف۲۱۹ ) اور ( اے سننے والے کسے باشد ) اگر تو ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے کہ تجھے علم آچکا تو اللہ سے تیرا کوئی بچانے والا نہ ہوگا اور نہ مددگار ( ف۲۲۰ )
یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہو نگے ، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو ۔ 121 صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے ۔ ورنہ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے ، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی ، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے ۔
اور یہود و نصارٰی آپ سے ( اس وقت تک ) ہرگز خوش نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کی پیروی اختیار نہ کر لیں ، آپ فرما دیں کہ بیشک اللہ کی ( عطا کردہ ) ہدایت ہی ( حقیقی ) ہدایت ہے ، ( امت کی تعلیم کے لئے فرمایا: ) اور اگر ( بفرضِ محال ) آپ نے اس علم کے بعد جو آپ کے پاس ( اللہ کی طرف سے ) آچکا ہے ، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو آپ کے لئے اللہ سے بچانے والا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مددگار
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :121 مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ناراضی کا سبب یہ تو ہے نہیں کہ وہ سچے طالبِ حق ہیں اور تم نے ان کے سامنے حق کو واضح کر نے میں کچھ کمی کی ہے ۔ وہ تو اس لیے تم سے ناراض ہیں کہ تم نے اللہ کی آیات اور اس کے دین کے ساتھ وہ منافقانہ اور بازی گرانہ طرزِ عمل کیوں اختیار نہ کیا ، خدا پرستی کے پردے میں وہ خود پرستی کیوں نہ کی ، دین کے اصول و احکام کو اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے میں اس دیدہ دلیری سے کیوں نہ کام لیا ، وہ ریاکاری اور گندم نمائی و جو فروشی کیوں نہ کی ، جو خود ان کا اپنا شیوہ ہے ۔ لہٰذا انہیں راضی کرنے کی فکر چھوڑ دو ، کیونکہ جب تک تم ان کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کر لو ، دین کے ساتھ وہی معاملہ نہ کرنے لگو ، جو خود یہ کرتے ہیں ، اور عقائد و اعمال کی اُنہیں گمراہیوں میں مُبتلا نہ ہو جاؤ ، جن میں یہ مبتلا ہیں ، اس وقت تک ان کا تم سے راضی ہونا محال ہے ۔
دین حق کا باطل سے سمجھوتہ جرم عظیم ہے آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تجھ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے لہذا تو بھی انہیں چھوڑ اور رب کی رضا کے پیچھے لگ جا تو نے انہیں دعوت رسالت پہنچا دیں ۔ دین حق وہی ہے جو اللہ نے تجھے دیا ہے تو اس پر جم جا ۔ حدیث شریف میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر جم کر دوسروں کے مقابلہ میں رہے گی اور غلبہ کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ قیامت آئے پھر اپنے نبی کو خطاب کر کے دھمکایا کہ ہرگز ان کی رضا مندی اور ان سے صلح جوئی کے لئے اپنے دین میں سست نہ ہونا ان کی طرف نہ جھکنا ان کی نہ ماننا فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی مذہب ہے خواہ وہ یہود ہوں نصرانی ہوں یا کوئی اور ہوں اس لئے کہ ملت کا لفظ یہاں مفرد ہی رکھا جیسے اور جگہ ہے آیت ( لکم دینکم ولی دین ) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے اس استدلال پر اس مسئلہ کی بنا ڈالی ہے کہ مسلمان اور کفار آپس میں وارث نہیں ہو سکتے اور کفر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیں گو وہ دونوں ایک ہی قسم کے کافر ہوں یا دو الگ الگ کفروں کے کافر ہوں ، امام شافعی اور امام ابو حنیفہ کا یہی مذہب ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے اور دوسری روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا یہ قول مروی ہے کہ دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں ایک صحیح حدیث میں بھی یہی مضمون ہے واللہ اعلم ۔ حق تلاوت سے کیا مراد ہے؟ پھر فرمایا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ حق تلاوت ادا کرتے ہوئے پڑھتے ہیں ، قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں اور روایت میں ہے کہ اس سے مراد اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر فرماتے ہیں حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے ابن مسعود فرماتے ہیں حلال و حرام کو جاننا کلمات کو ان کی جگہ رکھنا تغیر و تبدل نہ کرنا وغیرہ یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے حسن بصری فرماتے ہیں کھلی آیتوں پر عمل کرنا متشابہ آیتوں پر ایمان لانا مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے ابن عباس سے اس کا مطلب حق اتباع بجا لانا بھی مروی ہے پس تلاوت بمعنی اتباع ہے جیسے آیت ( وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا ) 91 ۔ الشمس:2 ) میں ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے یہی معنی مروی ہیں لیکن اس کے بعض راوی مجہول ہیں گو معنی ٹھیک ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں قرآن کی اتباع کرنے والا جنت کے باغیچوں میں اترنے والا ہے ، حضرت عمر کی تفسیر کے مطابق یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب فرماتے ۔ پھر فرمایا اس پر ایمان یہی لوگ رکھتے ہیں یعنی جو اہل کتاب اپنی کتاب کی سوچ سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ قرآن پر ایمان لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں جیسے اور جگہ آیت ( وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ) 5 ۔ المائدہ:66 ) اگر یہ توراۃ انجیل پر اور اللہ کی ان کی طرف نازل کردہ چیز پر قائم رہتے تو ان کے اوپر سے اور پیروں تلے سے انہیں کھانا ملتا اور فرمایا اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ و انجیل کو اور جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا اس کو قائم نہ کر لو تب تک تم کسی چیز پر نہیں ہو ان کا قائم کرنا مستلزم ہے کہ تم اس میں جو ہے اسے سچا جانو اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی صفات آپ کی تابعداری کا حکم آپ کی اتباع کی رغبت سب کچھ موجود ہے اور جگہ فرمایا جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی کی تابعداری کرتے ہیں جس رسول کا ذکر اور تصدیق اپنی کتاب توراۃ و انجیل میں بھی لکھا دیکھتے ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا ) 17 ۔ الاسرآء:107 ) یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان پر جب اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہے تو اپنے ایمان کا اقرار کر کے کہتے ہیں ہم تو پہلے ہی سے ماننے والوں میں ہیں انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا یہ لوگ برائی کو بھلائی سے ہٹاتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دوسروں کو دیتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا ) 3 ۔ آل عمران:20 ) یعنی پڑھے لکھے اور بےپڑھے لوگوں سے کہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر مان لیں تو راہ پر ہیں اور اگر نہ مانیں تو تجھ پر صرف تبلیغ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اسی لئے یہاں فرمایا کہ ساتھ کفر کرنے والے خسارے والے ہیں ، جیسے فرمایا آیت ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ) 11 ۔ ہود:17 ) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کے وعدے کی جگہ آگ ہے صحیح حدیث میں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جو بھی مجھے سنے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا ۔