Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَ يَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى‌ ؕ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿40﴾
اگر تم ان ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے ( دیس سے ) نکال دیا تھا دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے پس جناب باری نے اپنی طرف سے تسکین اس پر نازل فرما کر ان لشکروں سے اس کی مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں اس نے کافروں کی بات پست کردی اور بلند و عزیز تو اللہ کا کلمہ ہی ہے اللہ غالب ہے حکمت والا ہے ۔
الا تنصروه فقد نصره الله اذ اخرجه الذين كفروا ثاني اثنين اذ هما في الغار اذ يقول لصاحبه لا تحزن ان الله معنا فانزل الله سكينته عليه و ايده بجنود لم تروها و جعل كلمة الذين كفروا السفلى و كلمة الله هي العليا و الله عزيز حكيم
If you do not aid the Prophet - Allah has already aided him when those who disbelieved had driven him out [of Makkah] as one of two, when they were in the cave and he said to his companion, "Do not grieve; indeed Allah is with us." And Allah sent down his tranquillity upon him and supported him with angels you did not see and made the word of those who disbelieved the lowest, while the word of Allah - that is the highest. And Allah is Exalted in Might and Wise.
Agar tum inn ( nabi PBUH ) ki madad na kero yo Allah hi ney inn ki madad ki uss waqt jabkay enhen kafiron ney ( dess say ) nikal diya tha do mein say doosra jabkay woh dono ghaar mein thay jab yeh apney sathi say keh rahey thay kay ghum na ker Allah humaray sath hai pus janab-e-baari ney apni taraf say taskeen uss per nazil farma ker unn lashkaron say unn ki madad ki jinhen tum ney dekha hi nahi uss ney kafiron ki baat pust ker di aur buland-o-aziz to Allah ka kalma hi hai Allah ghalib hai hikmat wala hai.
اگر تم ان کی ( یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ) مدد نہیں کرو گے تو ( ان کا کچھ نقصان نہیں ، کیونکہ ) اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت ( مکہ سے ) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ : غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ ( ٣٧ ) چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی ، اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آئے ، اور کافر لوگوں کا بول نیچا کردکھایا ، اور بول تو اللہ ہی کا بالا ہے ، اور اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
اگر تم محبوب کی مدد نہ کرو تو بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا ( ف۹۲ ) صرف دو جان سے جب وہ دونوں ( ف۹۳ ) غار میں تھے جب اپنے یار سے ( ف۹٤ ) فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ اتارا ( ف۹۵ ) اور ان فوجوں سے اس کی مدد کی جو تم نے نہ دیکھیں ( ف۹٦ ) اور کافروں کی بات نیچے ڈالی ( ف۹۷ ) اللہ ہی کا بول بالا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے ،
تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ، اللہ اس کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا ، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر ، اللہ ہمارے ساتھ ہے 42 ۔ اس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون ِقلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا ۔ اور اللہ کا بول تو اونچا ہی ہے ، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اگر تم ان کی ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبۂ اسلام کی جد و جہد میں ) مدد نہ کرو گے ( تو کیا ہوا ) سو بیشک اللہ نے ان کو ( اس وقت بھی ) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں ( وطنِ مکہ سے ) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو ( ہجرت کرنے والوں ) میں سے دوسرے تھے جبکہ دونوں ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) غارِ ( ثور ) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی ( ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے فرما رہے تھے: غمزدہ نہ ہو بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے ، پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں ( فرشتوں کے ) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا ، اور اللہ کا فرمان تو ( ہمیشہ ) بلند و بالا ہی ہے ، اور اللہ غالب ، حکمت والا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :42 یہ اس موقع کا ذکر ہے جب کفار مکہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپ عین اس رات کو ، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی ، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے ۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی ۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یہ منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا ۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے ، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا ، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر ( جو شمال کی طرف تھی ) جنوب کی راہ اختیار کی ۔ یہاں تین دن تک آپ غار ثور میں چھپے رہے ۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے ۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو ۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تسکین دی کہ ”غم نہ کرو ، اللہ ہمارے ساتھ ہے“ ۔
آغاز ہجرت تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں ۔ میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں ۔ یاد رکھو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ کے قتل ، قید یا دیس نکالا دینے کی سازش کی تھی اور آپ اپنے سچے ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ شریف سے بحکم الٰہی تیز رفتاری سے نکلے تھے تو کون ان کا مددگار تھا ؟ تین دن غار میں گذارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ شریف کا راستہ لیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو کوئی ایذاء پہنچائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو بکر بن ابو قحافہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا آپ نے فرمایا ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہے ۔ الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی ۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تسکین نازل فرمائی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں ۔ اسلئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا ۔ شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لئے ۔ دوسرا حمیت قومی کے لئے ، تیسرا لوگوں کو خشو کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو کلمہ حق کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ راہ حق کا مجاہد ہے اللہ تعالیٰ انتقام لینے پر غالب ہے ۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی روک سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے ۔ کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے ۔ اس کے سب اقوال افعال حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں ۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ ۔