Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اِنْفِرُوۡا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿41﴾
نکل کھڑے ہو جاؤ ہلکے پھلکے ہو تو بھی اور بھاری بھرکم ہو تو بھی ، اور راہ رب میں اپنے مال و جان سے جہاد کرو یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم میں علم ہو ۔
انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالكم و انفسكم في سبيل الله ذلكم خير لكم ان كنتم تعلمون
Go forth, whether light or heavy, and strive with your wealth and your lives in the cause of Allah . That is better for you, if you only knew.
Nikal kharay hojao hulkay phulkay ho to bhi aur bhari bharkum ho to bhi aur raah-e-rab mein apni maal-o-jaan say jihad kero yehi tumharay liye behtar hai agar tum mein ilm ho.
۔ ( جہاد کے لیے ) نکل کھڑے ہو ، چاہے تم ہلکے ہو یا بوجھل ، اور اپنے مال و جان سے اللہ کے راستے میں جہاد کرو ۔ اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ۔
کوچ کرو ہلکی جان سے چاہے بھاری دل سے ( ف۹۸ ) اور اللہ کی راہ میں لڑو اپنے مال اور جان سے ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر جانو ( ف۹۹ )
نکلو ، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل 43 ، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو ۔
تم ہلکے اور گراں بار ( ہر حال میں ) نکل کھڑے ہو اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو ، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم ( حقیقت ) آشنا ہو
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :43 ہلکے اور بوجھل کے الفاظ بہت وسیع مفہوم رکھتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جب نکلنے کا حکم ہو چکاہے تو بہرحال تم کو نکلنا چاہیے خواہ برضا و رغبت خواہ بکراہت ، خواہ خوشحالی میں خواہ تنگ دستی میں ، خواہ ساز و سامان کی کثرت کے ساتھ خواہ بے سروسامانی کے ساتھ ، خواہ موافق حالات میں خواہ ناموافق حالات میں ، خواہ جوان و تندرست خواہ ضعیف و کمزور ۔
جہاد ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ کہتے ہیں کہ سورہ براۃ میں یہی آیت پہلے اتری ہے اس میں ہے کہ غزوہ تبوک کے لئے تمام مسلمانوں کو ہادی امم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکل کھڑے ہونا چاہئے اہل کتاب رومیوں سے جہاد کے لئے تمام مومنوں کو چلنا چاہئے خواہ دل مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا طبیعت پر گراں گزرے ۔ ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا کوئی بیمار کا عذر کر دے گا تو یہ آیت اتری ۔ بوڑھے جوان سب کو پیغمبر کا ساتھ دینے کا عام حکم ہوا کسی کا کوئی عذر نہ چلا حضرت ابو طلحہ نے اس آیت کی یہی تفسیر کی اور اس حکم کی تعمیل میں سر زمین شام میں چلے گئے اور نصرانیوں سے جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ جان بخشنے والے اللہ کو اپنی جان سپرد کر دی ۔ رضی اللہ عنہ وارضاء اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اس آیت پر آئے تو فرمانے لگے ہمارے رب نے تو میرے خیال سے بوڑھے جوان سب کو جہد کے لئے چلنے کی دعوت دی ہے میرے پیارے بچو میرا سامان تیار کرو ۔ میں ملک شام کے جہاد میں شرکت کے لئے ضرور جاؤں گا بچوں نے کہا ابا جی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات تک آپ نے حضور کی ماتحتی میں جہاد کیا ۔ خلافت صدیقی میں آپ مجاہدین کے ساتھ رہے ۔ خلافت فاروقی کے آپ مجاہد مشہور ہیں ۔ اب آپ کی عمر جہاد کی نہیں رہی آپ گھر پر آرام کیجئے ہم لوگ آپ کی طرف سے میدان جہاد میں نکلتے ہیں اور اپنی تلوار کے جوہر دکھاتے ہیں لیکن آپ نہ مانے اور اسی وقت گھر سے روانہ ہوگئے سمندر پار جانے کے لئے کشتی لی اور چلے ہنوز منزل مقصود سے کئی دن کی راہ پر تھے جو سمندر کے عین درمیان روح پروردگار کو سونپ دی ۔ نو دن تک کشتی چلتی رہی لیکن کوئی جزیرہ یاٹاپو نظر نہ آیا کہ وہاں آپ کو دفنایا جاتا ۔ نو دن کے بعد خشکی پر اترے اور آپ کو سپرد لحد کیا اب تک نعش مبارک جوں کی توں تھی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ اور بھی بہت سے بزرگوں سے خفافاً و ثقالاً کی تفسیر جوان اور بوڑھے مروی ہے ۔ الغرض جوان ہوں ، بوڑھے ہوں ، امیر ہوں ، فقیر ہوں ، فارغ ہوں ، مشغول ہوں ، خوش حال ہوں یا تنگ دل ہوں ، بھاری ہوں یا ہلکے ہوں ، حاجت مند ہوں ، کاری گر ہوں ، آسانی والے ہوں سختی والے ہوں پیشہ ور ہوں یا تجارتی ہوں ، قوی ہوں یا کمزور جس حالت میں بھی ہوں بلاعذر کھڑے ہو جائیں اور راہ حق کے جہاد کے لئے چل پڑیں ۔ اس مسئلہ کی تفصیل کے طور پر ابو عمرو اوزاعی کا قول ہے کہ جب اندرون روم حملہ ہوا ہو تو مسلمان ہلکے پھلکے اور سوار چلیں ۔ اور جب ان بندرگاہوں کے کناروں پر حملہ ہو تو ہلکے بوجھل سوار پیدل ہر طرح نکل کھڑے ہو جائیں ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ ( فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــةٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْهِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ ١٢٢؀ۧ ) 9- التوبہ:122 ) سے یہ حکم منسوخ ہے ۔ اس پر ہم پوری روشنی ڈالیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مروی ہے کہ ایک بھاری بدن کے بڑے شخص نے آپ سے اپنا حال ظاہر کر کے اجازت چاہی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور یہ آیت اتری ۔ لیکن یہ حکم صحابہ پر سخت گذرا پھر جناب باری نے اسے ( لَيْسَ عَلَي الضُّعَفَاۗءِ وَلَا عَلَي الْمَرْضٰى وَلَا عَلَي الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭمَا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 91۝ۙ ) 9- التوبہ:91 ) سے منسوخ کر دیا یعنی ضعیفوں بیماروں تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو اگر وہ اللہ کے دین اور شرع مصطفیٰ کے حامی اور طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں ۔ حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اول غزوے سے لے کر پوری عمر تک سوائے ایک سال کے ہر غزوے میں موجود رہے اور فرماتے رہے کہ خفیف وثقیل دونوں کو نکلنے کا حکم ہے اور انسان کی حالت ان دو حالتوں سے سوا نہیں ہوتی ۔ حضرت ابو راشد حرانی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت مقداد بن اسود سوار سرکار رسالت مآب کو حمص میں دیکھا کہ ہڈی اتر گئی ہے پھر بھی ہودج میں سوار ہو کر جہاد کو جا رہے ہیں تو میں نے کہا اب تو شریعت آپ کو معذور سمجھتی ہے آپ یہ تکلیف کیوں اٹھا رہے ہیں ؟آپ نے فرمایا سنو سورۃ البعوث یعنی سورہ برات ہمارے سامنے اتری ہے جس میں حکم ہے کہ ہلکے بھاری سب جہاد کو جاؤ ۔ حضرت حیان بن زید شرعی کہتے ہیں کہ صفوان بن عمرو والی حمص کے ساتھ جراجمہ کی جانب جہاد کے لئے چلے ، میں نے دمشق کے ایک عمر رسیدہ بزرگ کو دیکھا کہ حملہ کرنے والوں کے ساتھ اپنے اونٹ پر سوار وہ بھی آ رہے ہیں ان کی بھوئیں ان کی آنکھوں پر پڑ رہی ہیں شیخ فانی ہو چکے ہیں میں نے پاس جا کر کہا چچا صاحب آپ تو اب اللہ کے نزدیک بھی معذور ہیں یہ سن کر آپ نے اپنی آنکھوں پر سے بھوئیں ہٹائیں اور فرمایا بھتیجے سنو اللہ تعالیٰ نے ہلکے اور بھاری ہونے کی دونوں صورتوں میں ہم سے جہاد میں نکلنے کی طلب کی ہے ۔ سنو جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے وہاں اس کی آزمائش بھی ہوتی ہے پھر اس پر بعد از ثابت قدمی اللہ کی رحمت برستی ہے ۔ سنو اللہ کی آزمائش شکر و صبر و ذکر اللہ اور توحید خالص سے ہوتی ہے ۔ جہاد کے حکم کے بعد مالک زمین و زماں اپنی راہ میں اپنے رسول کی مرضی میں مال و جان کے خرچ کا حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے ۔ دنیوی نفع تو یہ ہے کہ تھوڑا سا خرچ ہو گا اور بہت سی غنیمت ملے گی آخرت کے نفع سے بڑھ کر کوئی نفع نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ذمے دو باتوں میں سے ایک ضروری ہے وہ مجاہد کو یا تو شہید کر کے جنت کا مالک بنا دیتا ہے یا اسے سلامتی اور غنیمت کے ساتھ واپس لوٹاتا ہے خود الہ العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ تم پر جہاد فرض کر دیا گیا ہے باوجود یہ کہ تم اس سے کترا کھا رہے ہو ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ تمہاری نہ چاہی ہوئی چیز ہی دراصل تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری چاہت کی چیز فی الواقع تمہارے حق میں بیحد مضر ہو سنو تم تو بالکل نادان ہو اور اللہ تعالیٰ پورا پورا دانا بینا ہے ۔ حضور نے ایک شخص سے فرمایا مسلمان ہو جا اس نے کہا جی تو چاہتا نہیں آپ نے فرمایا گو نہ چاہے ( مسند احمد )