Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿60﴾
صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ۔
انما الصدقت للفقراء و المسكين و العملين عليها و المؤلفة قلوبهم و في الرقاب و الغرمين و في سبيل الله و ابن السبيل فريضة من الله و الله عليم حكيم
Zakah expenditures are only for the poor and for the needy and for those employed to collect [zakah] and for bringing hearts together [for Islam] and for freeing captives [or slaves] and for those in debt and for the cause of Allah and for the [stranded] traveler - an obligation [imposed] by Allah . And Allah is Knowing and Wise.
Sadqay sirf faqeeron kay liye hain aur miskeenon kay liye aur inn kay wasool kerney walon kay liye aur unn kay liye jin kay dil parchaye jatay hon aur gardan churaney mein aur qaraz daron kay liye aur Allah ki raah mein aur raah ro musafiron kay liye farz hai Allah ki taraf say aur Allah ilm-o-hikmat wala hai.
صدقات تو دراصل حق ہے فقیروں کا ، مسکینوں کا ( ٤٨ ) اور ان اہلکاروں کا جو صدقات کی وصولی پر مقرر ہوتے ہیں ۔ ( ٤٩ ) اور ان کا جن کی دلداری مقصود ہے ۔ ( ٥٠ ) نیز انہیں غلاموں کو آزاد کرنے میں ( ٥١ ) اور قرض داروں کے قرضے ادا کرنے میں ( ٥٢ ) اور اللہ کے راستے میں ( ٥٣ ) اور مسافروں کی مدد میں ( ٥٤ ) خرچ کیا جائے ۔ یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
زکوٰة تو انہیں لوگوں کے لیے ہے ( ۱۳۷ ) محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو ، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے
یہ صدقات تو دراصل فقیروں 61 اور مسکینوں 62 کے لیے ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں 63 ، اور ان کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو ۔ 64 نیز یہ گردنوں کے چھڑانے 65 اور قرضداروں کی مدد کرنے میں 66 اور راہِ خدا میں 67 اور مسافر نوازی میں 68 استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے ۔
بیشک صدقات ( زکوٰۃ ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور ( مزید یہ کہ ) انسانی گردنوں کو ( غلامی کی زندگی سے ) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں پر ( زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے ) ۔ یہ ( سب ) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے ، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :61 فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو ۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاج اعانت ہو گئے ہوں ، یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں ، مثلا یتیم بچے ، بیوہ عورتیں ، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو قتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :62 مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی ، درماندگی ، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں ۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصد ق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس ۔ ” مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا ، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے ، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے ۔ “ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :63 یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں ۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں ، ان کی تنخواہیں بہر حال صدقات ہی کی مدد سے دی جائیں گی ۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکوت کے فرائض میں سے ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان ( یعنی بنی ہاشم ) پر زکوۃ کا مال حرام قرار دیا تھا ، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے ، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحب نصاب ہوں تو زکوۃ دینا ان پر فرض ہے ، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوۃ لینا ان کے لیے حرام ہے ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں ۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں ۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :64 تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا ۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو ، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں ، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استعانت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے ، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار ، یا مطیع و فرماں بردار ، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنالیا جائے ۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوۃ کی مد سے بھی ۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوۃ سے کی جا سکتی ہے ، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوۃ دیے جانے کے مستحق ہیں ۔ یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیف قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں ۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے ۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں ۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃالقلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو ۔ حنفیہ کا استدلال اس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابِس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی ۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا ۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیان صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں ۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں ۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا ۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے ۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس شکایت لے کر آئے اور اپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمر رضی اللہ عنہ ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے سے اختلاف کیا ۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھرے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا ۔ اس لیے باجماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہوگیا ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے ۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوۃ سے ۔ ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃالقلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بلاشبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا ۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے ۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کا اجماع حس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہ کے اجماع نے اس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی ۔ رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مدات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے ۔ لیکن جب زکوۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے ۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے ۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا ۔ ورنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :65 گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کردوں تو تم مجھے آزاد کر دو ، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے ۔ دوسرے یہ کہ خود زکوۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں ۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہاء متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علی رضی اللہ عنہ ، سعید بن جبیر ، لیث ، ثوری ، ابراہیم نخعی ، شعبی ، محمد بن سیرین ، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس ، حسن بصری ، مالک ، احمد اور ابو ثور جائز قرار دیتے ہیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :66 یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو ۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی ، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوۃ کی مد سے کی جاسکتی ہے ۔ مگر متعدد فقہاء کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضداری میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :67 راہ خدا کا لفظ عام ہے ۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوۃ کا مال ہر نیک کام میں صرف کیا جاسکتا ہے لیکن حق یہ ہے اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرنا ہو ۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے ، سواری کے لیے آلات واسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوۃ سے مدد دی جاسکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو ۔ اسی طرح جو لوگ رضا کارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دیدیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جاسکتی ہیں ۔ یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمہ کفر کو پست اور کلمہ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں خواہ وہ دعوت وتبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :68 مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو ، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہوجائے تو اس کی مدد زکوۃ کی مد سے کی جائیگی یہاں بعض فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کا سفر معصیت کے لیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے ۔ مگر قرآن وحدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے ، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے ۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسن سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے ۔
زکوۃ اور صدقات کا مصرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ اللہ کے حکم کے تحت ہے؟ اوپر کی آیت میں ان جاہل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر تقسیم صدقات میں اعتراض کر بیٹھتے تھے ۔ اب یہاں اس آیت میں بیان فرما دیا کہ تقسیم زکوٰۃ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے ۔ ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے کسی اور کے سپرد نہیں کی ابو داؤد میں ہے زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے سرکار نبوت میں حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ایک شخص نے آن کر آپ سے سوال کیا کہ مجھے صدقے میں سے کچھ دلوائیے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نبی غیر نبی کسی کے حکم پر تقسیم زکوٰۃ کے بارے میں راضی نہیں ہوا یہاں تک کہ خود اس نے تقسیم کر دی ہے آٹھ مصرف مقرر کر دیئے ہیں اگر تو ان میں سے کسی میں ہے تو میں تجھے دے سکتا ہوں ۔ امام شافعی وغیرہ تو فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مال کی تقسیم ان آٹھوں قسم کے تمام لوگوں پر کرنی واجب ہے اور امام مالک وغیرہ کا قول ہے کہ واجب نہیں بلکہ ان میں سے کسی ایک کو ہی دے دینا کافی ہے گو اور قسم کے لوگ بھی ہوں ۔ عام اہل علم کا قول بھی یہی ہے آیت میں بیان مصرف ہے نہ کہ ان سب کو دینے کا وجوب کا ذکر ۔ ان اقوال کی دلیلوں اور مناظروں کی جگہ یہ کتاب نہیں واللہ اعلم ۔ فقیروں کو سب سے پہلے اس لئے بیان فرمایا کہ ان کی حاجت بہت سخت ہے ۔ گو امام ابو حنیفہ کے نزدیک مسکین فقیر سے بھی برے حال والا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس کے ہاتھ تلے مال نہ ہو اسی کو فقیر نہیں کہتے بلکہ فقیر وہ بھی ہے جو محتاج ہو گرا پڑا ہو گو کچھ کھاتا کماتا بھی ہو ۔ ابن علیہ کہتے ہیں اس روایت میں اخلق کالفظ ہے اخلق کہتے ہیں ہمارے نزدیک تجارت کو لیکن جمہور اس کے برخلاف ہیں ۔ اور بہت سے حضرات فرماتے ہیں فقیر وہ ہے جو سوال سے بچنے والا ہو اور مسکین وہ ہے جو سائل ہو لوگوں کے پیچھے لگنے والا اور گھروں اور گلیوں میں گھومنے والا ۔ قتادہ کہتے ہیں فقیر وہ ہے جو بیماری والا ہو اور مسکین وہ ہے جو صحیح سالم جسم والا ہو ۔ ابراہیم کہتے ہیں مراد اس سے مہاجر فقراء ہیں سفیان ثوری کہتے ہیں یعنی دیہاتیوں کو اس میں سے کچھ نہ ملے ۔ عکرمہ کہتے ہیں مسلمانوں فقراء کو مساکین نہ کہو ۔ مسکین تو صرف اہل کتاب کے لوگ ہیں ۔ اب وہ حدیثیں سنئے جو ان آٹھوں قسموں کے متعلق ہیں ۔ فقراء ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں صدقہ مال دار اور تندرست توانا پر حلال نہیں ۔ کچھ شخصوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صدقے کا مال مانگا آپ نے بغور نیچے سے اوپر تک انہیں ہٹا کٹا قوی تندرست دیکھ کر فرمایا گر تم چاہو تو تمہیں دے دوں مگر امیر شخص کا اور قوی طاقت اور کماؤ شخص کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۔ مساکین ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین یہی گھوم گھوم کر ایک لقمہ دو لقمے ایک کھجور دو کھجور لے کر ٹل جانے والے ہی نہیں ۔ لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ پھر مساکین کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا جو بےپرواہی کے برابر نہ پائے نہ اپنی ایسی حالت رکھے کہ کوئی دیکھ کر پہچان لے اور کچھ دے دے نہ کسی سے خود کوئی سوال کرے ۔ صدقہ وصول کرنے والے یہ تحصیل دار ہیں انہیں اجرت اسی مال سے ملے گی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار جن پر صدقہ حرام ہے اس عہدے پر نہیں آ سکتے ۔ عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث اور فضل بن عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ درخواست لے کر گئے کہ ہمیں صدقہ وصولی کا عامل بنا دیجئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ حرام ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے ۔ جنکے دل بہلائے جاتے ہیں ۔ ان کی کئی قسمیں ہیں بعض کو تو اس لئے دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کو غنیمت حنین کا مال دیا تھا حالانکہ وہ اس وقت کفر کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا تھا اس کا اپنا بیان ہے کہ آپ کی اس داد و دہش نے میرے دل میں آپ کی سب سے زیادہ محبت پیدا کر دی حالانکہ پہلے سب سے بڑا دشمن آپ کا میں ہی تھا ۔ بعض کو اس لئے دیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام مضبوط ہو جائے اور ان کا دل اسلام پر لگ جائے ۔ جیسے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین والے دن مکہ کے آزاد کردہ لوگوں کے سرداروں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ میں ایک کو دیتا ہوں دوسرے کو جو اس سے زیادہ میرا محبوب ہے نہیں دیتا اس لئے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ اوندھے منہ جہنم میں گر پڑے ۔ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے کچا سونا مٹی سمیت آپ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے صرف چار شخصوں میں ہی تقسیم فرمایا ۔ اقرع بن حابس ، عینیہ بن بدر ، عقلمہ بن علاچہ اور زید خیر اور فرمایا میں ان کی دلجوئی کے لئے انہیں دے رہا ہوں ۔ بعض کو اس لئے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس والوں سے صدقہ پہنچائے یا آس پاس کے دشمنوں کی نگہداشت رکھے اور انہیں اسلامیوں پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ دے ان سب کی تفصیل کی جگہ احکام وفروع کی کتابیں ہیں نہ کہ تفسیر و اللہ اعلم ۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ اور عمار شعبی اور ایک جماعت کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب یہ مصرف باقی نہیں رہا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے مسلمان ملکوں کے مالک بن گئے ہیں اور بہت سے بندگان اللہ ان کے ماتحت ہیں ۔ لیکن اور بزرگوں کا قول ہے کہ اب بھی مولفتہ القلوب کو زکوٰۃ دینی جائز ہے ۔ فتح مکہ اور فتح ہوازن کے بعد بھی حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ان لوگوں کو مال دیا ۔ دوسرے یہ کہ اب بھی ایسی ضرورتیں پیش آ جایا کرتی ہیں ۔ آزادگی گردن کے بارے میں بہت سے بزرگ فرماتے ہیں کہ مراد اس سے وہ غلام ہیں جنہوں نے رقم مقرر کر کے اپنے مالکوں سے اپنی آزادگی کی شرط کر لی ہے انہیں مال زکوٰۃ سے رقم دی جائے کہ وہ ادا کر کے آزاد ہو جائیں اور بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ غلام جس نے یہ شرط نہ لکھوائی ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے خرید کر آزاد کرنے میں کوئی ڈر خوف نہیں ۔ غرض مکاتب غلام اور محض غلام دونوں کی آزادگی زکوٰۃ کا ایک مصرف ہے احادیث میں بھی اس کی بہت کچھ فضیلت وارد ہوئی ہے یہاں تک کہ فرمایا ہے کہ آزاد کردہ غلام کے ہر ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کا ہر ہر عضو جہنم سے آزاد ہو جاتا ہے یہاں تک کہ شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ بھی ۔ اس لئے کہ ہر نیکی کی جزا اسی جیسی ہوتی ہے قرآن فرماتا ہے تمہیں وہی جزا دی جائے گی وہ تم نے کیا ہو گا ۔ حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں کی مدد اللہ کے ذمے حق ہے وہ غازی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہو وہ مکاتب غلام اور قرض دار جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہو وہ نکاح کرنے والا جس کا ارادہ بدکاری سے محفوظ رہنے کا ہو کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت سے قریب اور دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا نسمہ آزاد کر اور گردن خلاصی کر ۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی چیز نہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں نسمہ کی آزادگی یہ ہے کہ تو اکیلا ہی کسی غلام کو آزاد کر دے ۔ اور گردن خلاصی یہ ہے کہ تو بھی اس میں جو تجھ سے ہو سکے مدد کرے ۔ قرض دار کی بھی کئی قسمیں ہیں ایک شخص دوسرے کا بوجھ اپنے اوپر لے لے کسی کے قرض کا اپنا ضامن بن جائے پھر اس کا مال ختم ہو جائے یا وہ خود قرض دار بن جائے یا کسی نے برائی پر قرض اٹھایا ہو اور اب وہ توبہ کر لے پس انہیں بھی مال زکوٰۃ دیا جائے گا کہ یہ قرض ادا کر دیں ۔ اس مسئلے کی اصل قبیصہ بن مخارق ہلالی کی یہ روایت ہے کہ میں نے دوسرے کا حوالہ اپنی طرف لیا تھا پھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا تم ٹھہرو ہمارے پاس مال صدقہ آئے گا ہم اس میں سے تمہں دیں گے پھر فرمایا قبیصہ سن تین قسم کے لوگوں کو ہی سوال حلال ہے ایک تو وہ جو ضامن پڑے پس اس رقم کے پورا ہونے تک اسے سوال جائز ہے پھر سوال نہ کرے ۔ دوسرا وہ جس کا مال کسی آفت ناگہانی سے ضائع ہو جائے اسے بھی سوال کرنا درست ہے یہاں تک کہ ضرورت پوری ہو جائے ۔ تیسرا وہ شخص جس پر فاقہ گذرنے لگے اور اس کی قسم کے تین ذی ہوش لوگ اس کی شہادت کے لئے کھڑے ہو جائیں کہ ہاں بیشک فلاں شخص پر فاقے گذرنے لگے ہیں اسے بھی مانگ لینا جائز ہے تاوقتیکہ اس کا سہارا ہو جائے اور سامان زندگی مہیا ہو جائے ۔ اس کے سوا اوروں کو سوال کرنا حرام ہے اگر وہ مانگ کر کچھ لے کر کھائیں گے تو حرام کھائیں گے ( مسلم شریف ) ایک شخص نے زمانہ نبوی میں ایک باغ خریدا قدرت الہٰی سے آسمانی آفت سے باغ کا پھل مارا گیا اس سے وہ بہت قرض دار ہو گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں جو ملے لے لو اس کے سوا تمہارے لئے اور کچھ نہیں ۔ ( مسلم ) آپ فرماتے ہیں کہ ایک قرض دار کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بلا کر اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھے گا کہ تو نے قرض کیوں لیا اور کیوں رقم ضائع کر دی؟ جس سے لوگوں کے حقوق برباد ہوئے وہ جواب دے گا کہ اللہ تجھے خوب علم ہے میں نے نہ اس کی رقم کھائی نہ پی نہ اڑائی بلکہ میرے ہاں مثلاً چوری ہو گئی یا آگ لگ گئی یا کوئی اور آفت آ گئی اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرا بندہ سچا ہے آج تیرے قرض کے ادا کرنے کا سب سے زیادہ مستحق میں ہی ہوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھ دے گا جس سے نیکیاں برائیوں سے بڑھ جائیں گی اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسے اپنے فضل و رحمت سے جنت میں لے جائے گا ( مسند احمد ) ۔ راہ الہٰی میں وہ مجاہدین غازی داخل ہیں جن کا دفتر میں کوئی حق نہیں ہوتا ۔ حج بھی راہ الٰہی میں داخل ہے ۔ مسافر جو سفر میں بےسروسامان رہ گیا ہو اسے بھی مال زکوٰۃ سے اپنی رقم دی جائے جس سے وہ اپنے شہر سے سفر کو جانے کا قصد رکھتے ہوں لیکن مال نہ ہو تو اسے بھی سفر خرچ مال زکوٰۃ سے دینا جائز ہے جو اسے آمد و رفت کے لئے کافی ہو ۔ آیت کے اس لفظ کی دلیل کے علاوہ ابو داؤد وغیرہ کی یہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالدار پر زکوٰۃ حرام ہے بجز پانچ قسم کے مالداروں کے ایک تو وہ جو زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو دوسرا وہ جو مال زکوٰۃ کی کسی چیز کو اپنے مال سے خرید لے تیسرا قرض دار چوتھا راہ الٰہی کا غازی مجاہد ، پانچواں وہ جسے کوئی مسکین بطور تحفے کے اپنی کوئی چیز جو زکوٰۃ میں اسے ملی ہو دے اور روایت ہے کہ زکوٰۃ مالدار کے لئے حلال نہیں مگر فی سبیل اللہ جو ہو یا سفر میں ہو اور جسے اس کا کوئی مسکین پڑوسی بطور تحفے ہدیئے کے دے یا اپنے ہاں بلا لے ۔ زکوٰۃ کے ان آٹھوں مصارف کو بیان فرما کر پھر ارشاد ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض ہے یعنی مقدر ہے اللہ کی تقدیر اس کی تقسیم اور اس کا فرض کرنا ۔ اللہ تعالیٰ ظاہر باطن کا عالم ہے اپنے بندوں کی مصلحتوں سے واقف ہے ۔ وہ اپنے قول فعل شریعت اور حکم میں حکمت والا ہے بجز اس کے کوئی بھی لائق عبادت نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کا پالنے والا ہے ۔