Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَلَٮِٕنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُ‌ؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿65﴾
اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے ۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔
و لىن سالتهم ليقولن انما كنا نخوض و نلعب قل ابالله و ايته و رسوله كنتم تستهزءون
And if you ask them, they will surely say, "We were only conversing and playing." Say, "Is it Allah and His verses and His Messenger that you were mocking?"
Agar aap inn say poochen to saaf keh den gay kay hum to yun hi aapas mein hans bol rahey thay. Keh dijiye kay Allah ussi ki aayaten aur uss ka rasool hi tumharay hansi mazaq kay liye reh gaye hain?
اور اگر تم ان سے پوچھو تو یہ یقینا یوں کہیں گے کہ : ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ۔ کہو کہ : کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کر رہے تھے ؟
اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے ( ف۱٤۵ ) تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ،
اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ۔ 73 ان سے کہو کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟
اور اگر آپ ان سے دریافت کریں تو وہ ضرور یہی کہیں گے کہ ہم تو صرف ( سفر کاٹنے کے لئے ) بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ فرما دیجئے: کیا تم اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ مذاق کر رہے تھے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :73 غزوہ تبوک کے زمانہ میں منافقین اکثر اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے اور اپنی تضحیک سے ان لوگوں کی ہمتیں پست کرنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں وہ نیک تینی کے ساتھ آمادہ جہاد پاتے ۔ چنانچہ روایات میں ان لوگوں کے بہت سے اقوال منقول ہوئے ہیں ۔ مثلا ایک محفل میں چند منافق بیٹھے گپ لڑا رہے تھے ۔ ایک نے کہا”اجی کیا رومیوں کو بھی تم نے کچھ عربوں کیطرح سمجھ رکھا ہے؟ کل دیکھ لینا کہہ سب سورما جو لڑنے تشریف لائے ہیں رسیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے ۔ “ دوسرا بولا”مزا ہو جو اوپر سے سو سو کوڑے بھی لگانے کا حکم ہو جائے؟“ ایک اور منافق نے حضور کو جنگ کی سرگرم تیاریاں کرتے دیکھ کر اپنے یار دوستوں سے کہا”آپ کو دیکھیے ، آپ روم و شام کے قلعے فتح کرنے چلے ہیں“ ۔
مسلمان باہم گفتگو میں محتاط رہا کریں ایک منافق کہہ رہا تھا کہ ہمارے یہ قرآن خواں لوگ بڑے شکم دار شیخی باز اور بڑے فضول اور بزدل ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب اس کا ذکر ہوا تو یہ عذر پیش کرتا ہوا آیا کہ یا رسول اللہ ہم تو یونہی وقت گزاری کے لئے ہنس رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں تمہارے ہنسی کے لئے اللہ رسول اور قرآن ہی رہ گیا ہے یاد رکھو اگر کسی کو ہم معاف کر دیں گے تو کسی کو سخت سزا بھی دیں گے ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار جا رہے تھے یہ منافق آپ کی تلوار پر ہاتھ رکھے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا معذرت کرتا ساتھ ساتھ جا رہا تھا آپ اس کی طرف دیکھتے بھی نہ تھے ۔ جس مسلمان نے اس کا یہ قول سنا تھا اس نے اسی وقت جواب بھی دیا تھا کہ تو بکتا ہے جھوٹا ہے تو منافق ہے یہ واقعہ جنگ تبوک کے موقعہ کا ہے مسجد میں اس نے یہ ذکر کیا تھا ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ تبوک جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منافقوں کا ایک گروہ بھی تھا جن میں ودیعہ بن ثابت اور فحش بن حمیر وغیرہ تھے یہ آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ نصرانیوں کی لڑائی کو عربوں کی آپس کی لڑائی جیسی سمجھنا سخت خطرناک غلطی ہے اچھا ہے انہیں وہاں پٹنے دو پھر ہم بھی یہاں ان کی درگت بنائیں گے ۔ ان پر ان کے دوسرے سردار فحش نے کہا بھئی ان باتوں کو چھوڑو ورنہ یہ ذکر پھر قرآن میں آئے گا ۔ کوڑے کھا لینا ہمارے نزدیک تو اس رسوائی سے بہتر ہے ۔ آگے آگے یہ لوگ یہ تذکرے کرتے جا ہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا جانا ذرا دیکھنا یہ لوگ جل گئے ان سے پوچھ تو کہ یہ کیا ذکر کر رہے تھے؟ اگر یہ انکار کریں تو تو کہنا کہ تم یہ باتیں کر رہے تھے ۔ حضرت عمار نے جا کر ان سے یہ کہا یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عذر معذرت کرنے لگے کہ حضور ہنسی ہنسی میں ہمارے منہ سے ایسی بات نکل گئی ، ودیعہ نے تو یہ کہا لیکن فحش بن حمیر نے کہا یا رسول اللہ آپ میرا اور میرے باپ کا نام ملاحظہ فرمائیے پس اس وجہ سے یہ لغو حرکت اور حماقت مجھ سے سرزد ہوئی معاف فرمایا جاؤں ۔ پس اس سے جناب باری نے درگذر فرما لیا اور اس آیت میں اسی سے درگذر فرمانے کا ذکر بھی ہوا ہے اس کے بعد اس نے اپنا نام بدل لیا عبدالرحمن رکھا سچا مسلمان بن گیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے اپنی راہ میں شہید کرنا کہ یہ دھبہ دھل جائے چنانچہ یمامہ والے دن یہ بزرگ شہد کر دیئے گئے اور ان کی نعش بھی نہ ملی رضی اللہ عنہ ورضاء ۔ ان منافقوں نے بطور طعنہ زنی کے کہا تھا کہ لیجئے کیا آنکھیں پھٹ گئیں ہیں اب یہ چلے ہیں کہ رومیوں کے قلعے اور ان کے محلات فتح کریں بھلا اس عقلمندی اور دوربینی کو تو دیکھئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ان کی ان باتوں پر مطلع کر دیا تو یہ صاف منکر ہوگئے اور قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی ہم تو آپس میں ہنسی کھیل کر رہے تھے ہاں ان میں ایک شخص تھا جسے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہو گا یہ کہا کرتا تھا کہ یا اللہ میں تیرے کلام کی ایک آیت سنتا ہوں جس میں میرے گناہ کا ذکر ہے جب بھی سنتا ہوں میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور میرا دل کپکپانے لگتا ہے ۔ پروردگار تو میری توبہ قبول فرما اور مجھے اپنی راہ میں شہید کر اور اس طرح کہ نہ کوئی مجھے غسل دے نہ کفن دے نہ دفن کرے یہی ہوا جنگ یمامہ میں یہ شہداء کے ساتھ شہید ہوئے تمام شہداء کی لاشیں مل گئیں لیکن انکی نعش کا پتہ ہی نہ چلا ۔ جناب باری کی طرف سے اور منافقوں کو جواب ملاکہ اب بہانے نہ بناؤ تم زبانی ایماندار بنے تھے لیکن اب اسی زبان سے تم کافر ہوگئے یہ قول کفر کا کلمہ ہے کہ تم نے اللہ رسول اور قرآن کی ہنسی اڑائی ۔ ہم اگر کسی سے درگذر بھی کر جائیں لیکن تم سب سے یہ معاملہ نہیں ہونے کا تمہارے اس جرم اور اس بدترین خطا اور اس کافرانہ گفتگو کی تمہیں سخت ترین سزا بھگتنا پڑے گی ۔