Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِهِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ وَكَرِهُوۡۤا اَنۡ يُّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِى الۡحَـرِّؕ قُلۡ نَارُ جَهَـنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا‌ؕ لَوۡ كَانُوۡا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿81﴾
پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا نا پسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو ۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے ۔
فرح المخلفون بمقعدهم خلف رسول الله و كرهوا ان يجاهدوا باموالهم و انفسهم في سبيل الله و قالوا لا تنفروا في الحر قل نار جهنم اشد حرا لو كانوا يفقهون
Those who remained behind rejoiced in their staying [at home] after [the departure of] the Messenger of Allah and disliked to strive with their wealth and their lives in the cause of Allah and said, 'Do not go forth in the heat." Say, "The fire of Hell is more intensive in heat" - if they would but understand.
Peechay reh janey walay log rasool Allah ( PBUH ) kay janey kay baad apney bethay rehney per khush hain enhon ney Allah ki raah mein apney maal aur apni janon say jihad kerna na pasand rakha aur enhon ney keh diya kay iss garmi mein mat niklo. Keh dijiye kay dozakh ki aag boht hi sakht garam hai kaash kay woh samajhtay hotay.
جن لوگوں کو ( غزوہ تبوک سے ) پیچھے رہنے دیا گیا تھا ، وہ رسول اللہ کے جانے کے بعد اپنے ( گھروں میں ) بیٹھے رہنے سے بڑے خوش ہوئے ، اور ان کو یہ بات ناگوار تھی کہ وہ اللہ کے راستے میں اپنے مال و جان سے جہاد کریں ، اور انہوں نے کہا تھا کہ : اس گرمی میں نہ نکلو ۔ کہو کہ : جہنم کی آگ گرمی میں کہیں زیادہ سخت ہے ۔ کاش ۔ ان کو سمجھ ہوتی ۔
پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے کہ وہ رسول کے پیچھے بیٹھ رہے ( ف۱۸۷ ) اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں لڑیں اور بولے اس گرمی میں نہ نکلو ، تم فرماؤ جہنم کی آگ سب سے سخت گرم ہے ، کسی طرح انہیں سمجھ ہوتی ( ف۱۸۸ )
جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں ۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اس سخت گرمی میں نہ نکلو ۔ ان سے کہو کہ جہنّم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے ، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا ۔
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی مخالفت کے باعث ( جہاد سے ) پیچھے رہ جانے والے ( یہ منافق ) اپنے بیٹھ رہنے پر خوش ہو رہے ہیں وہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کہتے تھے کہ اس گرمی میں نہ نکلو ، فرما دیجئے: دوزخ کی آگ سب سے زیادہ گرم ہے ، اگر وہ سمجھتے ہوتے ( تو کیا ہی اچھا ہوتا
جہنم کی آگ کالی ہے جو لوگ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھنے پر اکڑ رہے تھے ۔ جنہیں راہ اللہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے؟ ایک طرف پھر پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم اپنی اس بد کرداری سے جا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے ۔ یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اور روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جز ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہو گئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے ۔ ایک بار آپ نے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ Č۝ ) 66- التحريم:6 ) کی تلاوت کی اور فرمایا ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑ گئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہو گئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے ۔ ابو یعلی کی ایک غریب روایت میں ہے کہ اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کی تسمے سمیت ہوں گی جس کی گرمی سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہو گی اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے ۔ اور کئی آیتوں میں ہے ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی بہایا جائے گا ۔ جس سے ان کے پیٹ کی تمام چیزیں اور ان کے کھالیں جھلس جائیں گی پھر لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کے سر کچلے جائیں گے ۔ وہ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ہم بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیں گے ان کی کھالیں جھلستی جائیں گی اور ہم ان کھالوں کے بدلے اور کھالیں بدلتے جائیں گے کہ وہ خوب عذاب چکھیں ۔ اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے ۔ تو یقینا یہ باوجود موسمی گرمی کے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو راہ اللہ میں فدا کرنے پر تل جاتے ۔ عرب کا شاعر کہتا ہے کہ تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گذار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے ۔ اب اللہ تبارک و تعالیٰ ان بدباطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں ۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لئے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑ جائیں گے آخر آنسو ختم ہو جائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہو گا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے ہیں رہیں گے ، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہوگا ۔ اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت رحم کی جگہ تو تم کبھی ہو نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لاحاصل ہے ۔ اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے ہو رشتے کنبے کے ہو سنو ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان حشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں ، ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو ۔ چالیس سال تک کتوں کی طرح چیختے رہیں گے چالیس سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہو جائیں گے ۔