Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ اِنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَمَاتُوۡا وَهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‏ ﴿84﴾
ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور مرتے دم تک بدکار اور بے اطاعت رہے ہیں ۔
و لا تصل على احد منهم مات ابدا و لا تقم على قبره انهم كفروا بالله و رسوله و ماتوا و هم فسقون
And do not pray [the funeral prayer, O Muhammad], over any of them who has died - ever - or stand at his grave. Indeed, they disbelieved in Allah and His Messenger and died while they were defiantly disobedient.
Inn mein say koi marr jaye to aap uss kay janazay ki hergiz namaz na parhen aur na uss ki qabar per kharay hon. Yeh Allah aur uss kay rasool kay munkir hain aur martay dum tak bad kaar bey ita’at rahen hain.
اور ( اے پیغمبر ) ان ( منافقین ) میں سے جو کوئی مرجائے ، تو تم اس پر کبھی نماز ( جنازہ ) مت پڑھنا ، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ( ٦٩ ) یقین جانو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا ، اور اس حالت میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے ۔
اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا ، بیشک اللہ اور رسول سے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے ( ف۱۹۵ )
اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہرگز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے ۔ 88
اور آپ کبھی بھی ان ( منافقوں ) میں سے جو کوئی مر جائے اس ( کے جنازے ) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں ( کیونکہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حق دار نہیں ہیں ) ۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ کفر کیا اور وہ نافرمان ہونے کی حالت میں ہی مر گئے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :88 تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین مر گیا ۔ اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبداللہ جو مخلص مسلمانوں میں سے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لیے آپ کا کرتہ مانگا ۔ آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عطا کر دیا ۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھائیں ۔ آپ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باصرار عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ، کیا آپ اس شخص پر نماز جنازہ پڑھیں گے جو یہ اور یہ کر چکا ہے ۔ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے اور اپنی اس رحمت کی بنا پر جو دوست دشمن سب کے لیے عام تھی ، آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں بھی دعائے مغفرت کرنے میں تامل نہ کیا ۔ آخر جب آپ نماز پڑھانے کھڑے ہی ہوگئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور براہ راست حکم خداوندی سے آپ کو روک دیا گیا ۔ کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جا چکی تھی کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو کسی طرح پنپنے نہ دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو ۔ اسی سے یہ مسئلہ نکلا کہ فساق اور فجار اور مشہور بفسق لوگوں کی نماز جنازہ مسلمانوں کے امام اور سربرآوردہ لوگوں کو نہ پڑھانی چاہیے نہ پڑھنی چاہیے ۔ ان آیات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہو گیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے پر تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ کس قسم کا آدمی تھا ، اور اگر معلوم ہوتا کہ برے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو اسے دفن کر دو ۔
منافقوں کا جنازہ حکم ہوتا ہے کہ اے نبی تم منافقوں سے بالکل بےتعلق ہو جاؤ ۔ ان میں سے کوئی مر جائے تو تم نہ اس کے جنازے کی نماز پڑھو نہ اس کی قبر پر جا کر اسکے لئے دعائے استغفار کرو ۔ اس لئے کہ یہ کفر و فسق پر زندہ رہے اور اس پر مرے ۔ یہ حکم تو عام ہے گو اس کا شان نزول خاص عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں ہے جو منافقوں کا رئیس اور امام تھا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ اس کے مرنے پر اس کے صاحبزادے حضرت عبداللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ میرے باپ کے کفن کے لئے آپ خاص اپنا پہنا ہوا کرتا عنایت فرمائیے ۔ آپ نے دے دیا ۔ پھر کہا کہ آپ خود اس کے جنازے کی نماز پڑھائیے ۔ آپ نے یہ درخواست بھی منظور فرمالی اور نماز پڑھانے کے ارادے سے اٹھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کے جنازے کی نماز پڑھائیں گے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے آپ نے فرمایا سنو اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ تو ان کے لئے استغفار کرے یا نہ کرے اگر تو ان کے لئے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں نہیں بخشے گا ۔ تو میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ یہ منافق تھا لیکن تاہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنازے کی نماز پڑھائی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس نماز میں صحابہ بھی آپ کی اقتدا میں تھے ۔ ایک روایت میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آپ اس کی نماز کے لئے کھڑے ہوگئے تو میں صف میں سے نکل کر آپ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ کیا آپ اس دشمن رب عبداللہ بن ابی کے جنازے کی نمازیں پڑھائیں گے؟ حالانکہ فلاں دن اس نے یوں کہا اور فلاں دن یوں کہا ۔ اسکی وہ تمام باتیں دہرائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے سب سنتے رہے آخر میں فرمایا عمر مجھے چھوڑ دے ۔ اللہ تعالیٰ نے استغفار کا مجھے اختیار دیا ہے اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار ان کے گناہ معاف کرا سکتا ہے تو میں یقینا ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا ۔ چنانچہ آپ نے نماز بھی پڑھائی جنازے کے ساتھ بھی چلے دفن کے وقت بھی موجود رہے ۔ اس کے بعد مجھے اپنی اس گستاخی پر بہت ہی افسوس ہونے لگا کہ اللہ اور رسول اللہ خوب علم والے ہیں میں نے ایسی اور اس قدر جرات کیوں کی؟ کچھ ہی دیر ہوگی جو یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آخر دم تک نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق کے جنازے کی نماز پڑھی نہ اسکی قبر پر آ کر دعا کی ۔ اور روایت میں ہے کہ اس کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ نے آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ تشریف نہ لائے تو ہمیشہ کیلئے یہ بات ہم پر رہ جائے گی ۔ جب آپ تشریف لائے تو اسے قبر میں اتار دیا گیا تھا آپ نے فرمایا اس سے پہلے مجھے کیوں نہ لائے؟ چنانچہ وہ قبر سے نکالا گیا ۔ آپ نے اس کے سارے جسم پر تھتکار کر دم کیا اور اسے اپنا کرتہ پہنایا اور روایت میں ہے کہ وہ خود یہ وصیت کرکے مرا تھا کہ اس کے جنازے کی نماز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھائیں ۔ اس کے لڑکے نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی آرزو اور اس کی آخری وصیت کی بھی خبر کی ۔ اور یہ بھی کہا کہ اس کی وصیت یہ بھی ہے کہ اسے آپ کے پیراہن میں کفنایا جائے ۔ آپ اس کے جنازے کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ حضرت جبرائیل یہ آیتیں لے کر اترے ۔ اور روایت میں ہے کہ جبرائیل نے آپ کا دامن تان کر نماز کے ارادے کے وقت یہ آیت سنائی لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور روایت میں ہے اس نے اپنی بیماری کے زمانے میں حضور کو بلایا آپ تشریف لے گئے اور جا کر فرمایا کہ یہودیوں کی محبت نے تجھے تباہ کر دیا اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ وقت ڈانٹ ڈپٹ کا نہیں بلکہ میری خواہش ہے کہ آپ میرے لئے دعا استغفار کریں میں مر جاؤں تو مجھے اپنے پیرہن میں کفنائیں ۔ بعض سلف سے مروی ہے کہ کرتا دینے کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ آئے تو ان کے جسم پر کسی کا کپڑا ٹھیک نہیں آیا آخر اس کا کرتا لیا وہ ٹھیک آ گیا یہ بھی لمبا چوڑا چوڑی چکلی ہڈی کا آدمی تھا ۔ پس اس کے بدلے میں آپ نے اسے اس کے کفن کے لئے اپنا کرتا عطا فرمایا ۔ اس آیت کے اترنے کے بعد نہ تو کسی منافق کے جنازے کی نماز آپ نے پڑھی نہ کسی کے لئے استغفار کیا ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب آپ کو کسی جنازے کی طرف بلایا جاتا تو آپ پوچھ لیتے اگر لوگوں سے بھلائیاں معلوم ہوتیں تو آپ جا کر اس کے جنازے کی نماز پڑھاتے اور اگر کوئی ایسی ویسی بات کان میں پڑتی تو صاف انکار کردیتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا طریقہ آپ کے بعد یہ رہاکہ جس کے جنازے کی نماز حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھتے اس کے جنازے کی نماز آپ بھی پڑھتے جس کی حضرت حذیفہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نہ پڑھتے آپ بھی نہ پڑھتے اس لئے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کے نام گنوا دیئے تھے اور صرف انہی کو یہ نام معلوم تھے اسی بناء پر انہیں راز دار رسول کہا جاتا تھا ۔ بلکہ ایک مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک شخص کے جنازے کی نماز کے لئے کھڑا ہونے لگے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے چٹکی لے کر انہیں روک دیا ۔ جنازے کی نماز اور استغفار ان دونوں چیزوں سے منافقوں کے بارے میں مسلمانوں کو روک دینا ۔ یہ دلیل ہے اس امر کی کہ مسلمانوں کے بارے میں ان دونوں چیزوں کی پوری تاکید ہے ۔ ان میں مردوں کے لئے پورا نفع اور زندوں کے لئے کامل اجر و ثواب ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف ہے آپ فرماتے ہیں جو جنازے میں جائے اور نماز پڑھے جانے تک ساتھ رہے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔ پوچھا گیا کہ قیراط کیا ہے؟ فرمایا سب سے چھوٹا قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوتا ہے ۔ اسی طرح یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ میت کے دفن سے فارغ ہو کر وہیں اس کی قبر کے پاس ٹھہر کر حکم فرماتے کہ اپنے ساتھی کے لئے استغفار کرو اس کے لئے ثابت قدمی کی دعا کرو اس سے اس وقت سوال جواب ہو رہا ہے ۔