Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ كُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّاَجۡدَرُ اَلَّا يَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿97﴾
دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بھی بہت ہی سخت ہیں اور ان کو ایسا ہونا ہی چاہیے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالٰی نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے ۔
الاعراب اشد كفرا و نفاقا و اجدر الا يعلموا حدود ما انزل الله على رسوله و الله عليم حكيم
The bedouins are stronger in disbelief and hypocrisy and more likely not to know the limits of what [laws] Allah has revealed to His Messenger. And Allah is Knowing and Wise.
Dehati log kufur aur nifaq mein boht hi sakht hain aur unn ko aisa hona hi chahaiye kay unn ko inn kay ehkaam ka ilm na ho jo Allah Taalaa ney apney rasool per nazil farmaye hain aur Allah bara ilm wala bari hikmat wala hai.
جو دیہاتی ( منافق ) ہیں ، وہ کفر اور منافقت میں زیادہ سخت ہیں ، اور دوسروں سے زیادہ اسی لائق ہیں کہ اس دین کے احکام سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر اتارا ہے ۔ ( ٧٤ ) اور اللہ علم کا بھی مالک ہے ، حکمت کا بھی مالک ۔
گنوار ( ف۲۱۹ ) کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں ( ف۲۲۰ ) اور اسی قابل ہیں کہ اللہ نے جو حکم اپنے رسول پر اتارے اس سے جاہل رہیں ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے ،
یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے ۔ 95 اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے ۔
۔ ( یہ ) دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور ( اپنے کفر و نفاق کی شدت کے باعث ) اسی قابل ہیں کہ وہ ان حدود و احکام سے جاہل رہیں جو اللہ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر نازل فرمائے ہیں ، اور اﷲ خوب جاننے والا ، بڑی حکمت والا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :95 “جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے ۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کہ پہلے تو مرعوب ہوئے ۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے ۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحت وقت اسی میں دیکھی کہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جائیں ۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اس دین کو دین حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں ۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبول اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی ۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آجائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں ۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا ، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں ، وہ زکوۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلوں سے وصول کی جاتی تھی ، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے ، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جارہی تھیں ، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے ۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے ۔ انہیں جو کچح بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد ، اپنی آسائش ، اپنی زمینوں ، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی ۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سے رکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں ۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی ، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے ان سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے ۔ ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے ۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہل علم اور اہل حق کی صحبیت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا ۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں ۔ یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہوگا کہ ان آیات کے نزول سے تقریبا دو سال بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے ۔
دیہات ، صحرا اور شہر ہر جگہ انسانی فطرت یکساں ہے اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ دیہاتیوں اور صحرا نشین بدؤں میں کفار و منافق بھی ہیں اور مومن مسلمان بھی ہیں ۔ لیکن کافروں اور منافقوں کا کفر و نفاق نہایت سخت ہے ۔ ان میں اس بات کی مطلقاً اہلیت نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان حدوں کا علم حاصل کریں جو اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل فرمائی ہیں ۔ چنانچہ ایک اعرابی حضرت زید بن صوحان کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت یہ اس مجلس میں لوگوں کو کچھ بیان فرما رہے تھے ۔ نہاوند والے دن انکا ہاتھ کٹ گیا تھا ۔ اعرابی بول اٹھا کہ آپ کی باتوں سے تو آپ کی محبت میرے دل میں پیدا ہوتی ہے ۔ لیکن آپ کا یہ کٹا ہوا ہاتھ مجھے اور ہی شبہ میں ڈالتا ہے ۔ آپ نے فرمایا اس سے تمہیں کیا شک ہوا یہ تو بایاں ہاتھ ہے ۔ تو اعرابی نے کہا واللہ مجھے نہیں معلوم کہ دایاں ہاتھ کاٹتے ہیں یا بایاں؟ انہوں نے فرمایا اللہ عزوجل نے سچ فرمایا کہ اعراب بڑے ہی سخت کفر ونفاق والے اور اللہ کی حدوں کے بالکل ہی نہ جاننے والے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے جو بادیہ نشین ہوا اس نے غلط و جفا کی ۔ اور جو شکار کے پیچھے پڑ گیا اس نے غفلت کی ۔ اور جو بادشاہ کے پاس پہنچا وہ فتنے میں پڑا ۔ ابو داؤد ترمذی اور نسانی میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب کہتے ہیں چونکہ صحرا نشینوں میں عموماً سختی اور بدخلقی ہوتی ہے ، اللہ عزوجل نے ان میں سے کسی کو اپنی رسالت کے ساتھ ممتاز نہیں فرمایا بلکہ رسول ہمیشہ شہری لوگ ہوتے رہے ۔ جیسے فرمان اللہ ہے ۔ ( آیت وما ارسلنا من قبلک الا رجلا نوحی الیھم من اھل القری ) ہم نے تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب انسان مرد تھے جن کی طرف ہم وحی نازل فرماتے تھے وہ سب متمدن بستیوں کے لوگ تھے ۔ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ہدیہ پیش کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہدیہ سے کئی گناہ زیادہ انعام دیا جب جا کر بمشکل تمام راضی ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب سے میں نے قصد کیا ہے کہ سوائے قریشی ، ثقفی ، انصاری یا دوسی کے کسی کا تحفہ قبول نہ کروں گا ۔ یہ اس لئے کہ یہ چاروں شہروں کے رہنے والے تھے ۔ مکہ ، طائف ، مدینہ اور یمن کے لوگ تھے ، پس یہ فطرتاً ان بادیہ نشینوں کی نسبت نرم اخلاق اور دور اندیش لوگ تھے ، ان میں اعراب جیسی سختی اور کھردرا پن نہ تھا ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ایمان و علم عطا فرمائے جانے کا اہل کون ہے؟ وہ اپنے بندوں میں ایمان و کفر ، علم وجہل ، نفاق و اسلام کی تقسیم میں باحکمت ہے ۔ اس کے زبردست علم کی وجہ سے اس کے کاموں کی بازپرس اس سے کوئی نہیں کر سکتا ۔ اور اس حکمت کی وجہ سے اس کا کوئی کام بےجا نہیں ہوتا ۔ ان بادیہ نشینوں میں وہ بھی ہیں جو اللہ کی راہ کے خرچ کو ناحق اور تاوان اور اپنا صریح نقصان جانتے ہیں اور ہر وقت اسی کے منتظر رہتے ہیں کہ تم مسلمانوں پر کب بلا و مصیبت آئے ، کب تم حوادث و آفات میں گھر جاؤ لیکن ان کی یہ بد خواہی انہی کے آگے آئے گی ، انہی پر برائی کا زوال آئے گا ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ اور خوب جانتا ہے کہ مستحق امداد کون ہے اور ذلت کے لائق کون ہے ۔ دعاؤں کے طلبگار متبع ہیں ، مبتدع نہیں اعراب کی اس قوم کو بیان فرما کر اب ان میں سے بھلے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت کو مانتے ہیں ۔ راہ حق میں خرچ کر کے اللہ کی قربت تلاش کرتے ہیں ، ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے ہیں ۔ بیشک ان کو اللہ کی قربت حاصل ہے ۔ اللہ انہیں اپنی رحمتیں عطا کر دے گا ۔ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے ۔