Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿111﴾
بلا شبہ اللہ تعالٰی نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور ان کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے ۔
ان الله اشترى من المؤمنين انفسهم و اموالهم بان لهم الجنة يقاتلون في سبيل الله فيقتلون و يقتلون وعدا عليه حقا في التورىة و الانجيل و القران و من اوفى بعهده من الله فاستبشروا ببيعكم الذي بايعتم به و ذلك هو الفوز العظيم
Indeed, Allah has purchased from the believers their lives and their properties [in exchange] for that they will have Paradise. They fight in the cause of Allah , so they kill and are killed. [It is] a true promise [binding] upon Him in the Torah and the Gospel and the Qur'an. And who is truer to his covenant than Allah ? So rejoice in your transaction which you have contracted. And it is that which is the great attainment.
Bila shuba Allah Taalaa ney musalmanon say unn ki janon ko aur unn kay maalon ko iss baat kay ewaz mein khareed liya hai kay unn ko jannat milay gi. Woh log Allah ki raah mein lartay hain jiss mein qatal kertay hain aur qatal kiye jatay hain iss per sacha wada kiya gaya hai toraat mein aur injeel mein aur quran mein aur Allah say ziyada apney ehad ko kaun poora kerney wala hai to tum log apni iss bey per jiss ka tum ney moamla thehraya hai khsuhi manao aur yeh bari kaamyabi hai.
واقعہ یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات کے بدلے خرید لیے ہیں کہ جنت انہی کی ہے ۔ وہ اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں ، جس کے نتیجے میں مارتے بھی ہیں ، اور مرتے بھی ہیں ۔ یہ ایک سچا وعدہ ہے جس کی ذمہ داری اللہ نے تورات اور انجیل میں بھی لی ہے ، اور قرآن میں بھی ۔ اور کون ہے جو اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو؟ لہذا اپنے اس سودے پر خوشی مناؤ جو تم نے اللہ سے کرلیا ہے ۔ اور یہی بڑی زبردست کامیابی ہے ۔
بیشک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خریدلیے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے ( ف۲۵۵ ) اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں ( ف۲۵٦ ) اور مریں ( ف۲۵۷ ) اس کے ذمہ کرم پر سچا وعدہ توریت اور انجیل اور قرآن میں ( ف۲۵۸ ) اور اللہ سے زیادہ قول کا پورا کون تو خوشیاں مناؤ اپنے سودے کی جو تم نے اس سے کیا ہے ، اور یہی بڑی کامیابی ہے ،
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔ 106 وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ۔ ان سے ﴿جنّت کا وعدہ﴾ اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔ 107 اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو ؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس سودے پر جو تم نے خدا سے چکا لیا ہے ، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال ، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں ، ( اب ) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں ، سو وہ ( حق کی خاطر ) قتل کرتے ہیں اور ( خود بھی ) قتل کئے جاتے ہیں ۔ ( اﷲ نے ) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ ( لیا ) ہے ، تَورات میں ( بھی ) انجیل میں ( بھی ) اور قرآن میں ( بھی ) ، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے ، سو ( ایمان والو! ) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے ( جان و مال کو ) بیچا ہے ، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :106 یہاں ایمان کے اس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے ، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا ۔ اس اہم مضمون کے تضمنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقیت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے ۔ جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے ، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے ، کیونکہ وہی اس کا اور ان ساری چیزوں کا خالق ہے جو اس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے ۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اسے بیچے ، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے ۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیۃ اس کے حوالے کر دیا ہے ، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب وارادہ میں آزاد ہونا اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خود مختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے ۔ بالفاظ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور ان اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں ، مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے ۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے مالکانہ حقوق کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدود اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے ۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے ، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے ، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے ، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تو برضا و رغبت ( نہ کہ بمجبوری ) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے ، اور زندگی بھر اس میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے ، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا ۔ اس طرح اگر تو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو ( جو تیری حاصل کردہ نہیں بلکہ میری عطا کردہ ہے ) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورت جنت ادا کروں گا ۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے ۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے ، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے ، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے ۔ بیع کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تضمنات کا تجزیہ کیجیے: ( ۱ ) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے ۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اتر آئے ۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے ، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے ۔ ( ۲ ) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضی شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے ۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت کہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃ دست بردار ہو جائے ۔ پس اگر کوئی شخص کلمہ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا ، اپنے دل و ماغ اور بدن کی قوتوں کا ، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا ، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو ، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے ، مگر خدا کے ہاں یقینا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نےخدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے ۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا ، یہ دونوں طرز عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے ، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے ۔ ( ۳ ) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویہ زندگی اور کافرانہ رویہ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے ۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو ، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا ۔ الا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع کو بھول کر کوئی خود مختارانہ حرکت کر بیٹھے ۔ اسی طرح جو گروہ اہل ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی ، کوئی سیاست ، کوئی طرز تمدن و تہذیب ، کوئی طریق معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویہ خدا کی مرضی اور اس کے قانون شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کر سکتا ۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبیہ ہوگی اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا ۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں ، بہر حال ایک کافرانہ رویہ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ”مسلمان“ کے نام سے موسوم ہوں یا ”غیر مسلم“ کے نام سے ۔ ( ٤ ) اس بیع کی رو سے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے ۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرا لینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے ۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ ٔزندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو ۔ یہ اس بیع کے تضمنات ہیں ، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت ( یعنی جنت ) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں مؤخر کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ”بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا “ ۔ بلکہ وہ اس عمل کا معاوضہ ہے کہ” بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے“ ۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدہ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں ۔ اس سے پہلے وہ از روئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہو سکتا ۔ ان امور کی توضیح کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلہ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے ۔ اوپر سے جو سلسلہ تقریر چل رہا تھا اس میں ان لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا ۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر ، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے ، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت ، اپنے مال ، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا ۔ لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان ، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے ، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہے ، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے ، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو ، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو خدا کے منشاء کے خلاف استعمال کرتے ہو ، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو ۔ سچے اہل ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں ۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں ، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنی سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :107 اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے ۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیاد ہیں ۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں ، مثلا ” مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں ، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے“ ( متی ۱۰:۵ ) ”جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا“ ( متی ۳۹:۱۰ ) ” جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا “ ( متی ۲۹:۱۹ ) البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا ، اور یہی مضمون کیا ، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے ۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جزو لاینفک رہا ہے ۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانہ تنزل میں کچھ ایسے مادہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو ۔ اسی لیے کتاب الہٰی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے ۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے : ” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر“ ( استثناء ٦ : ٤ : ۵ ) اور یہ کہ: ” کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا “ ( استثنا ۳۲ : ٦ ) لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ، یعنی فلسطین ۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے ، اور پھر وہ خالص کلام الہٰی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے ۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات ، ان کے نسلی تعصبات ، ان کے اوہام ، ان کی آرزؤوں اور تمناؤں ، ان کی غلط فہمیوں ، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلام الہٰی کے ساتھ کچھ اس طرح رل مل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو ان زوائد سے ممیز کرنا قطعا غیر ممکن ہو جاتا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ آل عمران ، حاشیہ نمبر۲ ) ۔
مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا ۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے ۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے ۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے ۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالیٰ سے بیوپار کیا ۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں ۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا ، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا ۔ اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا ۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا جنت! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے ۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں ، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے ، مرتے ہیں اور مارتے ہیں ۔ ایسوں کے لئے یقینا جنت واجب ہے ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے ، رسولوں کی سچائی مان کر ، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالیٰ لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے ۔ حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں ، حضرت عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین ۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے ۔ جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے ، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے ۔