Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
اَلتَّاۤٮِٕبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السّاۤٮِٕحُوۡنَ الرّٰكِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَالنَّاهُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَالۡحٰــفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰه ِ‌ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿112﴾
وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے عبادت کرنے والے ، حمد کرنے والے روزہ رکھنے والے ( یا راہ حق میں سفر کرنے والے ) رکوع اور سجدہ کرنے والے نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے اور ایسے مومنین کو آپ خوشخبری سنا دیجئے ۔
التاىبون العبدون الحمدون الساىحون الركعون السجدون الامرون بالمعروف و الناهون عن المنكر و الحفظون لحدود الله و بشر المؤمنين
[Such believers are] the repentant, the worshippers, the praisers [of Allah ], the travelers [for His cause], those who bow and prostrate [in prayer], those who enjoin what is right and forbid what is wrong, and those who observe the limits [set by] Allah . And give good tidings to the believers.
Woh aisay hain jo tauba kerney walay ibadat kerney walay hamd kerney walay roza rakhney walay ( yaa raah-e-haq mein safar kerney walay ) rukoo aur sajda kerney walay nek baaton ki taleem kerney walay aur buri baaton say baaz rakhney walay aur Allah ki haddon ka khayal rakhney walay hain aur aisay momineen ko aap khushkhabri suna dijiye.
۔ ( جنہوں نے یہ کامیاب سودا کیا ہے وہ کون ہیں؟ ) توبہ کرنے والے ! اللہ کی بندگی کرنے والے ! اس کی حمد کرنے والے ! روزے رکھنے والے ! ( ٨٦ ) رکوع میں جھکنے والے ! سجدے گذرنے والے ! نیکی کی تلقین کرنے والے ، اور برائی سے روکنے والے ، اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے ، ( ٨٧ ) ( اے پیغمبر ) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو ۔
توبہ والے ( ف۲۵۹ ) عبادت والے ( ف۲٦۰ ) سراہنے والے ( ف۲٦۱ ) روزے والے رکوع والے سجدہ والے ( ف۲٦۲ ) بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے ( ف۲٦۳ ) اور خوشی سناؤ مسلمانوں ( ف۲٦٤ )
اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے 108 ، اس کی بندگی بجا لانے والے ، اس کی تعریف کے گن گانے والے ، اس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے 109 ، اس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے ، نیکی کا حکم دینے والے ، بدی سے روکنے والے ، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے 110 ﴿ اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں﴾ اور اے نبی ان مومنوں کو خوشخبری دے دو ۔
۔ ( یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے ) توبہ کرنے والے ، عبادت گذار ، ( اللہ کی ) حمد و ثنا کرنے والے ، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار ، ( خشوع و خضوع سے ) رکوع کرنے والے ، ( قربِ الٰہی کی خاطر ) سجود کرنے والے ، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی ( مقرر کردہ ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں ، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجئے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :108 متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ” توبہ کرنے والے“ ہے ۔ لیکن جس انداز کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہل ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں ۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں ، لہذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“ ۔ مومن اگرچہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے ، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اس کا اپنا ہے ، اور یہ بات کہ اس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتھ اپنے معاملہ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرز عمل اختیار کر بیٹھتا ہے ۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے ، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے ۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعوری حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس کی قابل تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار بار اسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے ۔ پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلہ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا ۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضی بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اولین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہ بندگی سے پھسل جائے وہ فورا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دور نکلتے چلے جائیں ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :109 متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ ( روزہ رکھنے والے ) سے کی ہے ۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ ، مجازی معنی ہیں ۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کیے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف درست نہیں ہے ۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں ۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اس سے راہ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہوں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو ۔ مثلا اقامت دین کے لیے جہاد ، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت ، دعوت دین ، اصلاح خلق ، طلب علم صالح ، مشاہدہ آثار الہٰی اور تلاش رزق حلال ۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھے ان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :110 یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات ، اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں ، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں ، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کاروائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں ۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے ۔ لہٰذا سچے اہل ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتے ہیں ، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں ۔
مومنین کی صفات جن مومنوں کا اوپر ذکر ہوا ہے ان کی پاک اور بہترین صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں ، برائیوں کو چھوڑتے جاتے ہیں ، اپنے رب کی عبادت پر جمے رہتے ہیں ، ہر قسم کی عبادتوں میں خاص طور پر قابل ذکر چیز اللہ کی حمد و ثنا ہے اس لئے وہ اس کی حمد بکثرت ادا کرتے ہیں اور فعلی عبادتوں میں خصوصیت کے ساتھ افضل عبادت روزہ ہے اس لیے وہ اسے بھی اچھائی سے رکھتے ہیں ۔ کھانے پینے کو ، جماع کو ترک کر دیتے ہیں ۔ یہی مراد لفظ سائحون سے یہاں ہے ۔ یہی وصف آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں کا قرآن نے بیان فرمایا ہے اور یہی لفظ سائحات وہاں بھی ہے ۔ رکوع سجود کرتے رہتے ہیں ۔ یعنی نماز کے پابند ہیں ۔ اللہ کی ان عبادتوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلوق کے نفع سے بھی غافل نہیں ۔ اللہ کی اطاعت کا ہر ایک کو حکم کرتے ہیں ۔ برائیوں سے روکتے رہتے ہیں ۔ خود علم حاصل کر کے بھلائی برائی میں تمیز کر کے اللہ کے احکام کے حفاظت کر کے پھر اوروں کو بھی اس کی رغبت دیتے ہیں ۔ حق تعالیٰ کی عبادت اور اس کی مخلوق کی حفاظت دونوں زیر نظر رکھتے ہیں ۔ یہی باتیں ایمان کی ہیں اور یہی اوصاف مومنوں کے ہیں ۔ انہیں خو شخبریاں ہوں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سیاحت سے مراد روزہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی بلکہ آپ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں یہ لفظ آیا ہے وہاں یہی مطلب ہے ۔ ضحاک بھی یہی کہتے ہیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ۔ کہ اس امت کی سیاحت روزہ ہے ۔ مجاہد ، سعید ، عطاء ، عبدالرحمن ، ضحاک سفیان وغیرہ کہتے ہیں کہ مراد سائحون سے صائمون ہے ۔ یعنی جو روزے رمضان کے رکھیں ۔ ابو عمرو کہتے ہیں روزہ پر دوام کرنے والے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ مراد سائحون سے روزے دار ہیں لیکن اس حدیث کا موقف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لفظ کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے یہ فرمایا ۔ تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور زیادہ مشہور تو یہی قول ہے ۔ اور ایسی دلیلیں بھی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مراد سیاحت سے اللہ کی راہ میں جہاد ہے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجئے ۔ آپ نے فرمایا میری امت کی سیاحت اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مجلس میں سیاحت کا ذکر آیا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بدلے اپنی راہ کا جہاد اور ہر اونچائی پر اللہ اکبر کہنا عطا فرمایا ہے ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اور مراد اس سے علم دین کے طالب علم ہیں ۔ عبدالرحمن فرماتے ہیں اللہ کی راہ کے مہاجر ہیں ۔ بعض لوگ صوفیہ طبقہ کے جو اس سے مراد لیتے ہیں کہ زمین کی سیر کرنا ، سفر میں رہنا ، ادھر ادھر جانا آنا ، پہاڑوں ، دوروں ، جنگلوں اور بندوں میں پھرنا اس کا نام سیاحت ہے ، یہ محض غلط فہمی ہے ، یہ سیاحت مشروع نہیں ۔ ہاں اللہ نہ کرے اگر بستی میں رہنے سے دین میں کوئی فتنہ پڑنے کا اندیشہ ہو تو اور بات ہے ۔ جیسے کہ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں قریب ہے کہ مومن کا سب سے بہتر مال بکریاں بن جائیں جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش برسنے کی جگہوں میں پڑا رہے ، اپنے دین کو لے کر فتنوں سے بھاگتا اور بچتا رہے ۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے یعنی بقول ابن عباس اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے والے بقول حسن بصری فرائض کی پابندی کرنے والے ، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجا لانے والے ۔