Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ لَوۡ كَانُوۡۤا اُولِىۡ قُرۡبٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿113﴾
پیغمبر کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں
ما كان للنبي و الذين امنوا ان يستغفروا للمشركين و لو كانوا اولي قربى من بعد ما تبين لهم انهم اصحب الجحيم
It is not for the Prophet and those who have believed to ask forgiveness for the polytheists, even if they were relatives, after it has become clear to them that they are companions of Hellfire.
Payghumbar ko aur doosray musalmanon ko jaaez nahi kay mushrikeen kay liye maghfirat ki dua maangen agar cheh woh rishtay daar hi hon iss amar kay zahir ho janey kay baad kay yeh log dozakhi hain.
یہ بات نہ تو نبی کو زیب دیتی ہے اور نہ دوسرے مومنوں کو کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ، جبکہ ان پر یہ بات پوری طرح واضح ہوچکی ہے کہ وہ دوزخی لوگ ہیں ۔ ( ٨٨ )
نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں ( ف۲٦۵ ) جبکہ انہیں کھل چکا کہ وہ دوزخی ہیں ( ف۲٦٦ )
نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں ، چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ، جب کہ ان پر یہ بات کھل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں ۔ 111
نبی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ایمان والوں کی شان کے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں اگرچہ وہ قرابت دار ہی ہوں اس کے بعد کہ ان کے لئے واضح ہو چکا کہ وہ ( مشرکین ) اہلِ جہنم ہیں
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :111 ” کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازما یہ معنی رکھتی ہے کہ اول تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں ، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابل معافی سمجھتے ہیں ۔ یہ دونوں باتیں اس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہگار ہو ۔ لیکن جو شخص کھلا ہوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولا غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے ، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے ، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے ، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرور بخش دے خواہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے ۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں ، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو ، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو “ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ” تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو “ ۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں ، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو ۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو ۔ رہی انسانی ہمدردی اور دنیوی تعلقات میں صلہ رحمی ، مواساۃ ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے ۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن ، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے ۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مدد کی جائے گی ۔ حاجت مند آدمی کو بہر صورت سہارا دیا جائے گا ۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی ۔ یتیم کے سر پر یقینا شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا ۔ ایسے معاملات میں ہرگز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم ۔
مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ممانعت مسند احمد میں ہے کہ ابو طالب کی موت کے وقت اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے گئے ۔ وہاں اس وقت ابو جہل اور عبداللہ بن ابی اُمیہ بھی تھا ۔ آپ نے فرمایا چچا لا الہ الا للہ کہہ لے اس کلمے کی وجہ سے اللہ عز وجل کے ہاں میں تیری سفارش تو کر سکوں ۔ یہ سن کر ان دونوں نے کہا کہ اے ابو طالب کیا تو عبدالمطلب کے دین سے پھر جائے گا ؟ اس پر اس نے کہا میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیر میں جب تک منع نہ کر دیا جاؤں تیرے لیے بخشش مانگتا رہونگا ۔ لیکن ( اوپر والی آیت ) اتری ۔ یعنی نبی کو اور مومنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں گو وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں ۔ ان پر تو یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ مشرک جہنمی ہیں ۔ اسی بارے میں ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ 56؀ ) 28- القصص:56 ) بھی اتری ہے ۔ یعنی تو جسے محبت کرے اسے راہ نہیں دکھا سکتا بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے راہ دکھاتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی زبانی اپنے مشرک ماں باپ کے لیے استغفار سن کر اس سے کہا کہ تو مشرکوں کے لیے استغفار کرتا ہے اس نے جواب دیا کہ کیا حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے استغفار نہیں کیا ؟ فرماتے ہیں میں نے جاکر یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ کہا جب کہ وہ مرگیا پھر میں نہیں جانتا یہ قول مجاہد کا ہے ۔ مسند احمد میں ہے ہم تقریبا ایک ہزار آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ، آپ منزل پر اترے ، دو رکعت نماز ادا کی پھر ہماری طرف منہ کر کے بیٹھے ۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے انسو جاری تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر تاب نہ لا سکے ، اٹھ کر عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا بات یہ ہے کہ میں نے اپنے رب عزوجل سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت نہ ملی ۔ اس پر میری آنکھں بھر آئیں کہ میری ماں ہے اور جہنم کی آگ ہے ۔ اچھا اور سنو! میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا اب وہ ممانعت ہٹ گئی ہے ۔ زیارت قبور سے منع کیا تھا ، اب تم کرو کیونکہ اس سے تمہیں بھلائی یاد آئے گی ۔ میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کے گوشت کو روکنے سے منع فرمایا تھا اب تم کھاؤ اور جس طرح چاہو روک رکھو ۔ اور میں نے تمہیں بعض خاص برتنوں میں پینے کو منع فرمایا تھا لیکن اب تم جس برتن میں چاہو پی سکتے ہیں لیکن خبردار نشے والی چیز ہرگز نہ پینا ۔ ابن جریر میں ہے کہ مکہ شریف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نشان قبر کے پاس بیٹھ گئے اور کچھ دیر خطاب کر کے آپ کھڑے ہوئے ہم نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا میں نے اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی قبر کے دیکھنے کی اجازت مانگی وہ تو مل گئی لیکن اس کے لیے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو نہ ملی ۔ اب جو آپ نے رونا شروع کیا تو ہم نے تو آپ کو کبھی ایسا اتنا روتے نہیں دیکھا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ قبرستان کی طرف نکلے ، ہم بھی آپ کے ساتھ تھے ۔ وہاں آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے ، پھر رونے لگے ۔ ہم بھی خوب روئے پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہوگئے آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اور ہمیں بلا کر فرمایا کہ تم کیسے روئے؟ ہم نے کہا آپ کو روتا دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی تھی جو مجھے ملی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ دعا کی اجازت نہ ملی اور ( آیت ماکان الخ ، ) اتری پس جو ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیے مجھے ہوا ۔ دیکھو میں نے زیارت قبر کی تمہیں ممانعت کی تھی ۔ لیکن اب میں رخصت دیتا ہوں کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ تبوک کی واپسی میں عمرے کے وقت ثنیہ عسفان سے اترتے ہوئے آپ نے صحابہ سے فرمایا تم عقبہ میں ٹھہرو ، میں ابھی آیا ۔ وہاں سے اتر کر آپ اپنی والدہ کی قبر پر گئے ۔ اللہ تعالیٰ سے دیر تک مناجات کرتے رہے ۔ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کیا آپ کے رونے سے سب لوگ رونے لگے اور یہ سمجھے کہ آپ کی امت کے بارے میں کوئی نئی بات پیدا ہوئی جس سے آپ اس قدر رو رہے ہیں ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس پلٹے اور دریافت فرمایا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا آپ کو روتا دیکھ کر اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ کی امت کے بارے میں کوئی ایسا نیا حکم اترا جو طاقت سے باہر ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو بات یہ ہے کہ یہاں میری ماں کی قبر ہے ۔ میں نے اپنے پروردگار سے قیامت کے دن اپنی ماں کی شفاعت کی اجازت طلب کی لیکن اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائی تو میرا دل بھر آیا اور میں رونے لگا ۔ جبرائیل آئے اور مجھ سے فرمایا ابراہیم کا استغفار اپنے باپ کے لیے صرف ایک وعدے سے تھا جس کا وعدہ ہو چکا تھا لیکن جب اس پر کھل گیا تو کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے توہ وہ فوراً بیزار ہو گیا پس آپ بھی اپنی ماں سے اسی طرح بیزار ہو جائیے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے بیزار ہو گئے ۔ پس مجھے اپنی ماں پر رحم اور ترس آیا ۔ پھر میں نے دعا کی کہ میری امت پر سے چاروں سختیاں دور کر دی جائیں اللہ تعالیٰ نے دو تو دور فرما دیں لیکن دو کے دور فرمانے سے انکار فرما دیا ۔ ا ۔ آسمان سے پتھر برسا کر ان کی ہلاکت ٢ ۔ زمین انہیں دھنسا کر ان کی ہلاکت ۔ ٣ ۔ ان میں پھوٹ اور اختلاف کا پڑنا ۔ ٤ ۔ ان میں ایک کو ایک سے ایذائیں پہنچنا ۔ ان چاوروں چیزوں سے بچاؤ کی میری دعا تھی دو پہلی چیزیں تو مجھے عنایت ہوگئیں میری امت آسمانی پتھراؤ سے اور زمین میں دھنسائے جانے سے تو بچا دی گئی ۔ ہاں آپس کا اختلاف آپس کی سر پھٹول یہ نہیں اٹھی ۔ آپ کی والدہ کی قبر ایک ٹیلے تلے تھی اس لیے آپ راستے سے گھوم کر وہاں گئے تھے ۔ یہ روایت غریب ہے اور سیاق عجیب ہے ۔ لیکن اس سے بھی زیادہ غریب اور منکر وہ روایت ہے جو امام خطیب بغدادی نے اپنی کتاب بنام سابق لاحق میں مجہول سند سے وارد کی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی والدہ کو زندہ کر دیا اور ایمان لائیں پھر مر گئیں ۔ اس طرح کی سہیلی کی ایک روایت ہے جس میں ایک نہیں کئی ایک راوی مجہول ہیں ۔ اس میں ہے کہ آپ کے ماں باپ دونوں دوبارہ زندہ ہوئے پھر ایمان لائے ابن دحیہ نے اسی روایت پر نظریں جما کر کہا ہے کہ یہ نئی زندگی اسی طرح کی ہے جس طرح مروی ہے کہ سورج ڈوب جانے کے بعد واپس لوٹا اور حضرت علی نے نماز عصر ادا کی ۔ طحاوی تو کہتے ہیں کہ سورج والی یہ روایت ثابت ہے ۔ قرطبی کہتے ہیں ان کی دوبار کی زندگی شرعاً یا عقلاً ممتنع نہیں ۔ کہتے ہیں میں نے سنا ہے کہ آپ کے چچا ابو طالب کو بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا اور آپ پر ایمان لایا ۔ میں کہتا ہوں اگر صیح روایت سے یہ روایتیں ثابت ہوں تو بیشک مانع کوئی نہیں ( لیکن تینوں روایتیں محض گپ ہیں ) واللہ اعلم ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں آپ نے ارادہ کیا کہ اپنی ماں کے لیے استغفار کریں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ۔ تو آپ نے حضرت ابراہیم کے استغفار کو پیش کیا ۔ اس کا جواب ( آیت ماکان استغفار الخ ، ) میں مل گیا ۔ فرماتے ہیں اس آیت سے پہلے مشرکین کے لیے استغفار کیا جاتا تھا ۔ اب ممنوع ہو گیا ۔ ہاں زندوں کے لیے جائز رہا ۔ لوگوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمارے بڑوں میں ایسے بھی تھے جو پڑوس کا اکرام کرتے تھے ، صلہ رحمی کرتے تھے ، غلام آزاد کرتے تھے ، ذمہ داری کا خیال رکھتے تھے ۔ تو کیا ہم ان کے لیے استغفار نہ کریں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں ، میں بھی اپنے والد کے لیے استغفار کرتا ہوں جیسے کہ حضرت ابراہیم اپنے والد کے لیے کرتے تھے ۔ اس پر ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) 9 ۔ التوبہ:113 ) تک نازل ہوئی ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا عذر بیان ہوا اور فرمایا ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ ١١٤؁ ) 9- التوبہ:114 ) مذکور ہے کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے چند باتیں وحی کی ہیں جو میرے کانوں میں گونج رہی ہیں اور میرے دل میں جگہ پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے حکم فرمایا گیا کہ میں کسی اس شخص کے لیے استغفار نہ کروں جو شرک پر مرا ہو ۔ اور یہ کہ جو شخص اپنا فالتو مال دے دے اس کے لیے یہی افضل ہے اور جو روک رکھے اسکے لیے برائی ہے ۔ ہاں برابر سرابر حسب ضرورت پر اللہ کے ہاں ملامت نہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک یہودی مر گیا جس کا ایک لڑکا تھا لیکن وہ مسلمان تھا اس لیے اپنے باپ کے جنازے میں وہ شریک نہ ہوا ۔ جب حضرت عبداللہ بن عباس کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمانے لگے اسے جنازے میں جانا چاہیے تھا اور دفن میں بھی موجود رہنا چاہیے تھا اور باپ کی زندگی تک اس کے لیے ہدایت کی دعا کرنی چاہیے تھی ۔ ہاں موت کے بعد اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ۔ پھر آپ نے ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ ١١٤؁ ) 9- التوبہ:114 ) تلاوت فرمائی کہ حضرت ابراہیم نے یہ طریقہ نہیں چھوڑا ۔ اس کی صحت کی گواہ ابو داؤد وغیرہ کہ یہ روایت بھی ہو سکتی ہے کہ ابو طالب کی موت پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آکر کہتے ہیں کہ یا رسول اللہ آپ کے بوڑھے چچا گمراہ مر گئے ہیں ۔ آپ نے فرمایا جاؤ انہیں دفنا کر سیدھے میرے پاس آؤ الخ ۔ مروی ہے کہ جب ابو طالب کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا میں تجھ سے صلہ رحمی کا رشتہ نبھا چکا ۔ حضرت عطا بن ابی رباح فرماتے ہیں میں تو قبلہ کی طرف منہ کرنے والوں میں سے کسی کے جنازے کی نماز نہ چھوڑوں گا ۔ گو وہ کوئی حبشن زنا سے حاملہ ہی ہو ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر ہی نماز و دعا حرام کی ہے اور فرمایا ہے ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ) 9 ۔ التوبہ:113 ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سنا کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے جو ابو ہریرہ اور اس کی ماں کے لیے استغفار کرے ۔ تو اس نے کہا باپ کے لیے بھی ۔ آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ میرا باپ شرک پر مرا ہے ۔ آیت میں فرمان الٰہی ہے کہ جب حضرت ابراہیم پر اپنے باپ کا اللہ کا دشمن ہونا کھل گیا ۔ یعنی وہ کفر ہی پر مر گیا ۔ مروی ہے کہ قیامت کے دن جب حضرت ابراہیم سے ان کا باپ ملے گا ۔ نہایت سرا سیمگی پریشانی کی حالت میں چہرہ غبار آلود اور کالا پڑا ہوا ہوگا کہے گا کہ ابراہیم آج میں تیری نافرمانی نہ کروں گا ۔ حضرت ابراہیم جناب باری میں عرض کریں گے کہ میرے رب تو نے مجھے قیامت کے دن رسوا نہ کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے ۔ اور میرا باپ تیری رحمت سے دور ہو کر عذاب میں مبتلا ہو یہ بہت بڑی رسوائی ہے ۔ اس پر فرمایا جائے گا کہ اپنی پیٹھ پیچھے دیکھو ۔ دیکھیں گے کہ ایک بجو کیچڑ میں لتھڑا ہوا کھڑا ہے ۔ یعنی آپ کے والد کی صورت مسخ ہو گئی ہوگی اور اس کے پاؤں پکڑ کر گھسیٹ کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا ۔ فرماتا ہے کہ ابراہیم بڑا ہی دعا کرنے والا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اواہ کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا رونے دھونے والا ، اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری کرنے والا ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں بہت ہی رحم کرنے والا ، مخلوق رب کے ساتھ نرمی اور سلوک اور مہربانی کرنے والا ۔ ابن عباس کا قول ہے پورے یقین والا ۔ سچے ایمان والا ، توبہ کرنے والا ، حبشی زبان میں اواہ مومن اور موقن یقین و ایمان والے کو کہتے ہیں ۔ ذوالنجادین نامی ایک صحابی کو اس بنا پر کہ جب قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا تو وہ اسی وقت دعا کے ساتھ آواز اٹھاتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اواہ فرمایا ۔ ( مسند احمد ) اواہ سے مراد تسبیح پڑھنے والا ۔ ضحٰی کی نماز پڑھنے والا ۔ اپنے گناہوں کی یاد آنے پر استغفار کرنے والا ۔ اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والا ۔ رب سے ڈرنے والا ۔ پوشیدہ اگر کوئی گناہ ہو جائے تو توبہ کرنے والا بھی مروی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر ہوا کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بکثرت یاد کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح بیان کرتا رہتا ہے ۔ آپ نے فرمایا وہ اواہ ہے ۔ ( ابن جریر ) اسی ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک میت کو دفن کر کے فرمایا یقینا تو اواہ یعنی بکثرت تلاوت کلام اللہ شریف کرنے والا تھا ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص بیت اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے اپنی دوا میں اوہ اوہ کر رہا تھا ۔ اس کے انتقال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دفن میں شامل تھے چونکہ رات کا وقت تھا اس لیے آپ کے ساتھ چراغ بھی تھا ۔ ( ابن جریر ) یہ روایت غریب ہے ۔ کعب احبار فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم کے سامنے جہنم کا ذکر ہوتا تھا تو آپ اس سے پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اواہ یعنی فقیہ امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ سب سے بہتر قول ان تمام اقوال میں یہ ہے کہ مراد اس لفظ سے بکثرت دعا کرنے والا ہے ۔ الفاظ کے مناسب بھی یہی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر یہ فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کے لیے استغفار کیا کرتے تھے اور تھے بھی بکثرت دعا مانگنے والے ۔ بردبار بھی تھے ، جو آپ پر ظلم کرے ، آپ سے برا پیش آئے آپ تحمل کر جایا کرتے تھے ۔ باپ نے آپ کو ایذاء دی صاف کہہ دیا تھا کہ تو میرے معبودوں سے منہ پھیر رہا ہے تو اگر اپنی اس حرکت سے باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالوں گا ۔ وغیرہ لیکن پھر بھی آپ نے ان کے لیے استغفار کرنے کا وعدہ کر لیا ، پس اللہ فرماتا ہے کہ ابراہیم اواہ اور حلیم تھے ۔