Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَمَا كَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰهِيۡمَ لِاَبِيۡهِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِيَّاهُ‌ ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنۡهُ‌ ؕ اِنَّ اِبۡرٰهِيۡمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿114﴾
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کا اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت مانگنا وہ صرف وعدہ کے سبب تھا جو انہوں نے ان سے وعدہ کر لیا تھا ۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بے تعلق ہوگئے ، و اقعی ابراہیم ( علیہ السلام ) بڑے نرم دل اور بردبار تھے ۔
و ما كان استغفار ابرهيم لابيه الا عن موعدة وعدها اياه فلما تبين له انه عدو لله تبرا منه ان ابرهيم لاواه حليم
And the request of forgiveness of Abraham for his father was only because of a promise he had made to him. But when it became apparent to Abraham that his father was an enemy to Allah , he disassociated himself from him. Indeed was Abraham compassionate and patient.
Aur ibrahim ( alh-e-salam ) ka apney baap kay liye dua-e-maghfirat maangna woh sirf wada kay sabab say tha jo unhon ney uss say wada ker liya tha phir jab unn per yeh baat zahir hogaee kay woh Allah ka dushman hai to woh iss say mehaz mehaz bey talluq hogaye waqaee ibrahim ( alh-e-salam ) baray naram dil aur burd baar thay.
اور ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو مغفرت کی دعا مانگی تھی ، اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں تھی کہ انہوں نے اس ( باپ ) سے ایک وعدہ کرلیا تھا ۔ ( ٨٩ ) پھر جب ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے ، تو وہ اس سے دستبردار ہوگئے ۔ ( ٩٠ ) حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم بڑی آہیں بھرنے والے ، ( ٩١ ) بڑے بردبار تھے ۔
اور ابراہیم کا اپنے باپ ( ف۲٦۷ ) کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا ( ف۲٦۸ ) پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا ( لاتعلق ہوگیا ) ( ف۲٦۹ ) بیشک ابراہیم بہت آہیں کرنے والا ( ف۲۷۰ ) متحمل ہے ،
ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی وجہ سے تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا 112 ، مگر جب اس پر یہ بات کھل گئی کہ اس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگیا ، حق یہ ہے کہ ابراہیم بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بردبار آدمی تھا ۔ 113
اور ابراہیم ( علیہ السلام ) کا اپنے باپ ( یعنی چچا آزر ، جس نے آپ کو پالا تھا ) کے لئے دعائے مغفرت کرنا صرف اس وعدہ کی غرض سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے ، پھر جب ان پر یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے زار ہوگئے ( اس سے لاتعلق ہوگئے اور پھر کبھی اس کے حق میں دعا نہ کی ) ۔ بیشک ابراہیم ( علیہ السلام ) بڑے دردمند ( گریہ و زاری کرنے والے اور ) نہایت بردبار تھے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :112 اشارہ ہے اس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo ( مریم ۔ آیت ٤۷ ) ” آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے ، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے“ ۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ ( الممتحنہ آیت ٤ ) ” میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا ، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں“ ۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o ( الشعراء آیات ۸٦ تا ۸۹ ) ” اور میرے باپ کو معاف کر دے ، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا ، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے ، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد ، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو“ ۔ یہ دعا اول تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی ۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا ، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا ، تو وہ اس سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبری کر دی ، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :113 متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا ، زاری کرنے والا ، ڈرنے والا ، حسرت کرنے والا ۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو ، نہ غصے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو ، نہ محبت اور دوستی اور تعلق خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے ۔ یہ دونوں لفظ اس مقام پر دوہرے معنی دے رہے ہیں ۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے ، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا ۔ اور حلیم تھے ، اس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کو روکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا ۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی ۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبری کی ، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے ۔