Surah

Information

Surah # 9 | Verses: 129 | Ruku: 16 | Sajdah: 0 | Chronological # 113 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except last two verses from Makkah
وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُـضِلَّ قَوۡمًۢا بَعۡدَ اِذۡ هَدٰٮهُمۡ حَتّٰى يُبَيِّنَ لَهُمۡ مَّا يَتَّقُوۡنَ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿115﴾
اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کرکے بعد میں گمراہ کردے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلا دے جن سے وہ بچیں بیشک اللہ تعالٰی ہرچیز کو خوب جانتا ہے ۔
و ما كان الله ليضل قوما بعد اذ هدىهم حتى يبين لهم ما يتقون ان الله بكل شيء عليم
And Allah would not let a people stray after He has guided them until He makes clear to them what they should avoid. Indeed, Allah is Knowing of all things.
Aur Allah aisa nahi kerta kay kissi qom ko hidayat ker kay baad mein gumrah kerdey jab tak kay unn cheezon ko saaf saaf na batla dey jin say woh bachen be-shak Allah Taalaa her cheez ko khoob janta hai.
اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے جب تک اس نے ان پر یہ بات واضح نہ کردی ہو کہ انہیں کن باتوں سے بچنا ہے ۔ ( ٩٢ ) یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے ۔
اور اللہ کی شان نہیں کہ کسی قوم کو ہدایت کرکے گمراہ فرمائے ( ف۲۷۱ ) جب تک انہیں صاف نہ بتادے کہ کسی چیز سے انہیں بچنا ہے ( ف۲۷۲ ) بیشک اللہ سب کچھ جانتا ہے ،
اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرے جب تک کہ انہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے ۔ 114 در حقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔
اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو ، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرما دے جن سے انہیں پرہیزکرنا چاہئے ، بیشک اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :114 یعنی اللہ پہلے یہ بتا دیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات ، کن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے ، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں ۔ یہ ارشاد ایک قاعدہ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے ۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق ، فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیتا ہے ، پھر جو لوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے ۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح طریق فکر و عمل اس نے بتا دیا ہے اگر اس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بنایتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے ۔ اس خاص سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پا سکتی ہے اور آگے جو بیان آرہا ہے اس کی تمہید بھی ۔
معصیت کا تسلسل گمراہی کا بیج ہے ۔ اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ وہ کریم و عادل اللہ کسی قوم کو ہدایت کرنے کے بعد حجت پوری کئے بغیر گمراہ نہیں کرتا ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ ثمودیوں کو ہم نے ہدایت دی لیکن انہوں نے بینائی کے باجود اندھے پن کو ترجیح دی ۔ اوپر کی آیت کی مناسبت کی وجہ سے مشرکوں کے لیے استغفار نہ کرنے کے بارے میں خاص طور پر اور اللہ تعالیٰ کی ہر معصیت کے چھوڑنے اور ہر طاعت کے بجا لانے میں عام طور پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بیان فرما چکا ہے ۔ اب جو چاہے کرے ، جو چاہے چھوڑے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرتا کہ مومنوں کو مشرک مردوں کے استغفار سے روکے بغیر ہی ان کے اس استغفار کی وجہ سے انہیں اپنے نزدیک گمراہ بنا دے ۔ حالانکہ اس سے پیشتر وہ انہیں ایمان کی راہ پر لاچکا ہے ۔ پس پہلے اپنی کتاب کے ذریعے انہیں اس سے روک رہا ہے ۔ اب جو مان گیا اور اللہ کی ممانعت کے کام سے رک گیا اس پر اس سے پہلے کئے ہوئے کام کی وجہ سے گمراہی لازم نہیں ہو جاتی ۔ اس لیے کہ طاعت و معصیت حکم و ممانعت کے بعد ہوتی ہے ۔ اس سے پہلے مطیع اور عاصی ظاہر نہیں ہوتا ۔ پہلے ہی ان چیزوں کو وہ ظاہر فرما دیتا ہے جس سے بچانا چاہتا ہے ۔ وہ پورا باخبر اور سب سے بڑھ کر علم والا ہے ۔ پھر مومنین کو مشرکین سے اور ان کے ذی اختیار بادشاہوں سے جہاد کی رغبت دلاتا ہے ۔ اور انہیں اپنی مدد پر بھروسہ کرنے کو فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کا ملک میں ہی ہوں ۔ تم میرے دشمنوں سے مرعوب مت ہونا ۔ کون ہے جو ان کا حمایتی بن سکے؟ اور کون ہے جو ان کی مدد پر میرے مقابلے میں آسکتا ہے ؟ ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ اپنے اصحاب کے مجمع میں بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کیا جو میں سنتا ہوں تم بھی سن رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضرت ہمارے کان میں کوئی آواز نہیں آرہی ۔ آپ نے فرمایا میں آسمانوں کا چرچرانا سن رہا ہوں درحقیقت میں ان کا چرچرانا ٹھیک بھی ہے ۔ ان میں ایک بالشت بھر جگہ ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں اور قیام میں نہ ہو ۔ کعب احبار فرماتے ہیں ساری زمین میں سوئی کے ناکے برابر کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ مقرر نہ ہو جو یہاں کا علم اللہ کی طرف نہ پہنچاتا ہو ۔ آسمان کے فرشتوں کی گنتی زمین کے سنگریزوں سے بڑی ہے ۔ عرش کے اٹھانے والے فرشتوں کے ٹخنے اور پنڈلی کے درمیان کا فاصلہ ایک سو سال کا ہے ۔