Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ
شروع کرتا ہوں اللہ تعا لٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ۔
بسم الله الرحمن الرحيم
In the name of Allah , the Entirely Merciful, the Especially Merciful.
Shuroo Allah kay naam say jo bara meharban nehayat reham kerney wala hai
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے ، بہت مہربان ہے
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا ( ف۱ )
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے ۔
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے ۔
سورة یُوْنُس نام : اس سورہ کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت ۹۸ سے لیا گیا ہے جس میں اشارۃ حضرت یونس ( علیہ السلام ) کا ذکر آیا ہے ۔ سورہ کا موضوع بحث حضرت یونس ( علیہ السلام ) کا قصہ نہیں ہے ۔ مقام نزول : روایات سے معلوم ہوتا ہے اور نفس مضمون سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پوری سورۃ مکے میں نازل ہوئی ہے ۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس کی بعض آیتیں مدنی دور کی ہیں ، لیکن یہ محض ایک سطحی قیاس ہے ۔ سلسلہ کلام پر غور کرنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ مختلف تقریروں یا مختلف مواقع پر اتری ہوئی آیتوں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہوگی ، اور مضمون کلام اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ یہ مکی دور کا کلام ہے ۔ زمانہ نزول : زمانہ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی ۔ لیکن مضمون سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورۃ زمانہ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی ۔ کیونکہ اس کے انداز کلام سے صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کر چکی ہے ، وہ نبی اور پیروان نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ، ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آجائیں گے ، اور اب انہیں اس انجام سے خبردار کرنے کا موقع آگیا ہے کہ جو نبی کو آخری اور قطعی طور پر رد کر دینے کی صورت میں انہیں لازما دیکھنا ہوگا ۔ مضمون کی یہی خصوصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کونسی سورتیں مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ لیکن اس سورہ میں ہجرت کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا ، اس لیے اس کا زمانہ ان سورتوں سے پہلے کا سمجھنا چاہیے جن میں کوئی نہ کوئی خفی یا جلی اشارہ ہم کو ہجرت کے متعلق ملتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زمانہ کی اس تعیین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، کیونکہ اس دور کا تاریخی پس منظر سورہ انعام اور سورہ اعراف کے دیباچوں میں بیان کیا جا چکا ہے ۔ موضوع : موضوع تقریر دعوت ، فہمائش اور تنبیہ ہے ۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ: لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ ساحری کا الزام دے رہے ہیں ، حالانکہ جو بات وہ پیش کر رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہی ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہا ہے ۔ ایک یہ کہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملا چلا رہا ہے صرف وہی تمہارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو ۔ دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے ، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے اور ان بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی خدا کو اپنا آقا مان کر اس کے منشا کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے ۔ یہ دونوں حقیقتیں ، جو وہ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ، بجائے خود امر واقعی ہیں خواہ تم مانو یا نہ مانو ۔ وہ تمہیں دعوت دیتا ہے کہ تم انہیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنا لو ۔ اس کی یہ دعوت اگر تم قبول کرو گے تو تمہارا اپنا انجام بہتر ہو گا ورنہ خود ہی برا نتیجہ دیکھو گے ۔ مباحث : اس تمہید کے بعد حسب ذیل مباحث ایک خاص ترتیب کے ساتھ سامنے آتی ہیں: ( ۱ ) وہ دلائل جو توحید ربوبیت اور حیات اخروی کے باب میں ایسے لوگوں کو عقل و ضمیر کا اطمینان بخش سکتے ہیں جو جاہلانہ تعصب میں مبتلا نہ ہوں اور جنہیں بحث کی ہار جیت کے بجائے اصل فکر اس بات کی ہو کہ خود غلط بینی اور اس کے برے نتائج سے بچیں ۔ ( ۲ ) ان غلط فہمیوں کا ازالہ اور ان غفلتوں پر تنبیہ جو لوگوں کو توحید اور آخرت کا عقیدہ تسلیم کرنے میں مانع ہو رہی تھیں ( اور ہمیشہ ہوا کرتی ہیں ) ۔ ( ۳ ) ان شبہات اور اعتراضات کا جواب جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں پیش کیے جاتے تھے ۔ ( ٤ ) دوسری زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی پیشگی خبر ، تاکہ انسان اس سے ہوشیار ہو کر اپنے آج کے طرز عمل کو درست کر لے اور بعد میں پچھتانے کی نوبت نہ آئے ۔ ( ۵ ) اس امر پر تنبیہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی زندگی ہے اور اس امتحان کے لیے تمہارے پاس بس اتنی ہی مہلت ہے جب تک تم اس دنیا میں سانس لے رہے ہو ۔ اس وقت کو اگر تم نے ضائع کر دیا اور نبی کی ہدایت قبول کر کے امتحان کی کامیابی کا سامان نہ کیا تو پھر کوئی دوسرا موقع تمہیں ملنا نہیں ہے ۔ اس نبی کا آنا اور اس قرآن کے ذریعہ تم کو علم حقیقت کا بہم پہنچایا جانا وہ بہترین اور ایک ہی موقع ہے جو تمہیں مل رہا ہے ۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے تو بعد کی ابدی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ پچھتاؤ گے ۔ ( ٦ ) ان کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں پر اشارہ جو لوگوں کی زندگی میں صرف اس وجہ سے پائی جا رہی تھیں کہ وہ خدائی ہدایت کے بغیر جی رہے تھے ۔ اس سلسلہ میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصرا اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے چار باتیں ذہن نشین کرنی مطلوب ہیں ۔ اول یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو معاملہ تم لوگ کر رہے ہو وہ اس سے ملتا جلتا ہے جو نوح اور موسی ٰ علیہما السلام کے ساتھ تمہارے پیش رو کر چکے ہیں اور یقین رکھو کہ اس طرز عمل کا جو انجام وہ دیکھ چکے ہیں وہی تمہیں بھی دیکھنا پڑے گا ۔ دوم یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو آج جس بے بسی و کمزوری کے حال میں تم دیکھ رہے ہو اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ صورت حال ہمیشہ یہی رہے گی ۔ تمہیں خبر نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر وہی خدا ہے جو موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی پشت پر تھا اور وہ ایسے طریقہ سے حالات کی بساط الٹ دیتا ہے جس تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی ۔ سوم یہ کہ سنھلنے کے لیے جو مہلت خدا تمہیں دے رہا ہے اسے اگر تم نے ضائع کر دیا اور پھر فرعون کی طرح خدا کی پکڑ میں آجانے کے بعد عین آخری لمحے پر توبہ کی تو معافی نہیں کیے جاؤ گے ۔ چہارم یہ کہ جو لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے وہ مخالف ماحول کی انتہائی شدت اور اس کے مقابلہ میں اپنی بیچارگی دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہیے ۔ نیز وہ اس امر پر بھی متنبہ ہو جائیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اس حالت سے نکال دے تو کہیں وہ اس روش پر نہ چل پڑیں جو بنی اسرائیل نے مصر سے نجات پا کر اختیار کی ۔ آخر میں اعلان کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ اور یہ مسلک ہے جس پر چلنے کی اللہ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی ہے ۔ اس میں قطعا کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی ، جو اسے قبول کرے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو اس کو چھوڑ کر غلط راہوں میں بھٹکے گا وہ اپنا ہی کچھ بگاڑ دے گا ۔