Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنۡهُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنَّ لَهُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّهِمۡؔ‌ؕ قَالَ الۡكٰفِرُوۡنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيۡنٌ‏ ﴿2﴾
کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی کہ سب آدمیوں کو ڈرائیے اور جو ایمان لے آئے ان کو یہ خوشخبری سنائیے کہ ان کے رب کے پاس ان کو پورا اجر و مرتبہ ملے گا ۔ کافروں نے کہا کہ یہ شخص تو بلاشبہ صریح جادوگر ہے ۔
اكان للناس عجبا ان اوحينا الى رجل منهم ان انذر الناس و بشر الذين امنوا ان لهم قدم صدق عند ربهم قال الكفرون ان هذا لسحر مبين
Have the people been amazed that We revealed [revelation] to a man from among them, [saying], "Warn mankind and give good tidings to those who believe that they will have a [firm] precedence of honor with their Lord"? [But] the disbelievers say, "Indeed, this is an obvious magician."
Kiya inn logon ko iss baat say tajjub hua kay hum ney inn mein say aik shaks kay pass wahee bhej di kay sab aadmiyon ko daraiye aur jo eman ley aaye unn ko yeh khushkhabri suniye kay inn kay rab kay pass inn ko poora ajar-o-martaba milay ga. Kafiron ney kaha yeh shaks to bila shuba sareeh jadoogar hai.
کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے خود انہی میں کے ایک شخص پر وحی نازل کی ہے کہ :‘‘ لوگوں کو ( اللہ کی خلاف ورزی سے ) ڈراؤ ، اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، ان کی خوشخبری دو کہ ان کے رب کے نزدیک ان کا صحیح معنی میں بڑا پایہ ہے ( ٢ ) ’’ ( مگر جب اس نے لوگوں کو یہ پیغام دیا تو ) کافروں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو گر ہے ۔
کیا لوگوں کو اس کا اچنبا ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک مرد کو وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈر سناؤ ( ف۲ ) اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے ، کافر بولے بیشک یہ تو کھلا جادوگر ہے ( ف۳ )
کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خود انہی میں سے ایک آدمی کو اشارہ کیا کہ ﴿غفلت میں پڑے ہوئے﴾ لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟ 2 ﴿کیا یہی وہ بات ہے جس پر ﴾ منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے؟ 3
کیا یہ بات لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مردِ ( کامل ) کی طرف وحی بھیجی کہ آپ ( بھولے بھٹکے ہوئے ) لوگوں کو ( عذابِ الٰہی کا ) ڈر سنائیں اور ایمان والوں کو خوشخبری سنائیں کہ ان کے لئے ان کے رب کی بارگاہ میں بلند پایہ ( یعنی اونچا مرتبہ ) ہے ، کافر کہنے لگے: بیشک یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :2 یعنی آخر اس میں تعجب کی بات کیا ہے؟ انسانوں کو ہوشیار کر نے کے لیے انسان نہ مقرر کیا جاتا تو کیا فرشتہ یا جن یا حیوان مقرر کیا جاتا ؟ اور اگر انسان حقیقت سے غافل ہو کر غلط طریقے سے زندگی بسر کر رہے ہوں تو تعجب کی بات یہ ہے کہ ان کا خالق و پروردگار انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے یا یہ کہ وہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کوئی انتظام کرے؟ اور اگر خدا کی طرف سے کوئی ہدایت آئے تو عزت و سرفرازی ان کے لیے ہونی چاہیے جو اسے مان لیں یا ان کے جو اسے رد کر دیں؟ پس تعجب کرنے والوں کو سوچنا تو چاہیے کہ آخر وہ بات کیا ہے جس پر وہ تعجب کر رہے ہیں ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :3 یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے یا نہیں ۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلی درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے ، اس پر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات کیا کہتا ہے ، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے ، اور جو اثرات اس کی تقریر سے ایمان لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں جو خطیب کسی ناجائز غرض کے لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام ، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے ۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے ، خواہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی ، مبالغہ آمیز اور غیر منصفانہ ہو ۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری ہوتی ہے ۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہو ا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت کی شراب پلاتا ہے ۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئی اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے ، نہ ان کی زندگیوں میں کوئی مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے ، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرے کر نے لگتے ہیں ۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے ، ایک متناسب نظام فکر ہے ، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے ، لفظ جچا تلا اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے ۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے ۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا ۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے برے نتائج سے ان کو خبردار کرے اور انہیں اس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے ۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں ۔ یہاں جس نے بھی اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے ، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرز عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہوگئی ہے ۔ اب تم خود ہی سوچ لو ، کیا جادوگر ایسی ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا جادو ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے؟