Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
اُولٰٓٮِٕكَ مَاۡوٰٮهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿8﴾
ایسے لوگوں کا ٹھکانا ان کے اعمال کی وجہ سے دوزخ ہے ۔
اولىك ماوىهم النار بما كانوا يكسبون
For those their refuge will be the Fire because of what they used to earn.
Aisay logon ka thikana unn kay aemaal ki waja say dozakh hai.
ان کا ٹھکانا اپنے کرتوت کی وجہ سے دوزخ ہے ۔
ان لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہے بدلہ ان کی کمائی کا ،
ان کا آخری ٹھکانہ جہنم ہوگا ان برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ ﴿اپنے اس غلط عقیدے اور غلط طرزِ عمل کی وجہ سے﴾ کرتے رہے ۔ 12
انہی لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے ان اعمال کے بدلہ میں جو وہ کماتے رہے
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :12 یہاں سے پھر دعوے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیل بھی اشارۃ بیان کر دی گئی ہے ۔ دعوی یہ ہے کہ عقیدہ آخرت کے انکار کا لازمی اور قطعی نتیجہ جہنم ہے ، اور دلیل ہے کہ اس عقیدے سے منکر یا خالی الذہن ہو کر انسان ان برائیوں کا اکتساب کرتا ہے جن کی سزا جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اور ہزارہا سال کے انسانی رویے کا تجربہ اس پر شاہد ہے ۔ جو لوگ خدا کے سامنے اپنےآپ کو ذمہ دار اور جواب دہ نہیں سمجھتے ، جو اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے کہ انہیں آخرکار خدا کو اپنے پورے کارنامہ حیات کا حساب دینا ہے ، جو اس مفروضے پر کام کرتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے ، جن کے نزدیک کامیابی و ناکامی کا معیار صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں آدمی نے کس قدر خوشحالی ، آسائش ، شہرت اور طاقت حاصل کی ، اور جو اپنے انہی مادہ پرستانہ تخیلات کی بنا پر آیات الہٰی کو ناقابل توجہ سمجھتے ہیں ، ان کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جاتی ہے ۔ وہ دنیا میں شتر بے مہار بن کر رہتے ہیں ، نہات برے اخلاق و اوصاف کا اکتساب کرنے میں ، خدا کی زمین کو ظلم و فساد اور فسق و فجور سے بھر دیتے ہیں ، اور اس بنا پر جہنم کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ یہ عقیدہ آخرت پر ایک اور نوعیت کی دلیل ہے ۔ پہلی تین دلیلیں عقلی استدلال کے قبیل سے تھیں ، اور یہ تجربی استدلال کے قبیل سے ہے ۔ یہاں اسے صرف اشارۃ بیان کیا گیا ہے ، مگر قرآن میں مختلف مواقع پر ہمیں اس کی تفصیل ملتی ہے ۔ اس استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا انفرادی رویہ اور انسانی گروہوں کا اجتماعی رویہ کبھی اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک یہ شعور اور یہ یقین انسانی سیرت کی بنیاد میں پیوست نہ ہو کہ ہم کو خدا کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ اب غور طلب یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ اس شعور و یقین کے غائب یا کمزور ہوتے ہی انسانی سیرت و کردار کی گاڑی برائی کی راہ پر چل پڑتی ہے ۔ اگر عقیدہ آخرت حقیقت نفس الامری کے مطابق نہ ہو اور اس کا انکار حقیقت کے خلاف نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اقرار و انکار کے نتائج ایک لزومی شان کے ساتھ مسلسل ہمارے تجربے میں آتے ۔ ایک ہی چیز سے پیہم صحیح نتائج کا برآمد ہونا اور اس کے عدم سے نتائج کا ہمیشہ غلط ہو جانا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وہ چیز بجائے خود صحیح ہے ۔ اس کے جواب میں بسا اوقات یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ بہت سے منکرین آخرت ایسے ہیں جن کا فلسفہ اخلاق اور دستور عمل سراسر دہریت و مادہ پرستی پر مبنی ہے پھر بھی وہ اچھی خاصی پاک سیرت رکھتے ہیں اور ان سے ظلم و فساد اور فسق و فجور کا ظہور نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ اپنے معاملات میں نیک اور خلق خدا کے خدمت گزار ہوتے ہیں ۔ لیکن اس استدلال کی کمزوری بادنی تامل واضح ہو جاتی ہے ۔ تمام مادہ پرستانہ لادینی فلسفوں اور نظامات فکر کی جانچ پڑتال کر کے دیکھ لیا جائے ۔ کہیں ان اخلاقی خوبیوں اور عملی نیکیوں کے لیے کوئی بنیاد نہ ملے گی جن کا خراج تحسین ان ” نیکوکار“ دہریوں کو دیا جاتا ہے ۔ کسی منطق سے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ ان لادینی فلسفوں میں راست بازی ، امانت ، دیانت ، وفائے عہد ، عدل ، رحم ، فیاضی ، ایثار ، ہمدردی ، ضبط نفس ، عفت ، حق شناسی ، اور ادائے حقوق کے لیے محرکات موجود ہیں ۔ خدا اور آخرت کو نظر انداز کر دینے کے بعد اخلاق کے لیے اگر کوئی قابل عمل نظام بن سکتا ہے تو وہ صرف افادیت ( Utilitarianism ) کی بنیادوں پر بن سکتا ہے ۔ باقی تمام اخلاقی فلسفے محض فرضی اور کتابی ہیں نہ کہ عملی ۔ اور افادیت جو اخلاق پیدا کرتی ہے اسے خواہ کتنی ہی وسعت دی جائے ، بہرحال وہ اس سے آگے نہیں جاتا کہ آدمی وہ کام کرے جس کا کوئی فائدہ اس دنیا میں اس کی ذات کی طرف ، یا اس معاشرے کی طرف جس سے وہ تعلق رکھتا ہے ، پلٹ کر آنے کی توقع ہو ۔ یہ وہ چیز ہے جو فائدے کی امید اور نقصان کے اندیشے کی بنا پر انسان سے سچ اور جھوٹ ، امانت اور خیانت ، ایمانداری اور بے ایمانی ، وفا اور غدر ، انصاف اور ظلم ، غرض ہر نیکی اور اس کی ضد کا حسب موقع ارتکاب کرا سکتی ہے ۔ ان اخلاقیات کا بہترین نمونہ موجودہ زمانہ کی انگریز قوم ہے جس کو اکثر اس امر کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے کہ مادہ پرستانہ نظریہ حیات رکھنے اور آخرت کے بہترین تصور سے خالی ہونے کے باوجود اس قوم کے افراد بالعموم دوسروں سےزیادہ سچے ، کھرے ، دیانت دار ، عہد کے پابند ، انصاف پسند اور معاملات میں قابل اعتماد ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افادی اخلاقیات کی ناپائیداری کا سب سے زیادہ نمایاں عملی ثبوت ہم کو اسی قوم کے کردار میں ملتا ہے ۔ اگر فی الواقع انگریزوں کی سچائی ، انصاف پسندی ، راستبازی اور عہد کی پابندی اس یقین و اذعان پر مبنی ہوتی کہ یہ صفات بجائے خود مستقل اخلاقی خوبیاں ہیں تو آخر یہ کس طرح ممکن تھا کہ ایک ایک انگریز تو اپنے شخصی کردار میں ان کا حامل ہوتا مگر ساری قوم مل کر جن لوگوں کو اپنا نمائندہ اور اپنے اجتماعی امور کا سربراہ کار بناتی ہے وہ بڑے پیمانے پر اس کی سلطنت اور اس کے بین الاقوامی معاملات کے چلانے میں علانیہ جھوٹ ، بدعہدی ، ظلم ، بے انصافی اور بددیانتی سے کام لیتے اور پوری قوم کا اعتماد ان کو حاصل رہتا ؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ یہ لوگ مستقل اخلاقی قدروں کے قائل نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدے اور نقصان کے لحاظ سے بیک وقت دو متضاد اخلاقی رویے اختیار کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں؟ تاہم اگر کوئی منکر خدا و آخرت فی الواقع دنیا میں ایسا موجود ہے جو مستقل طور پر بعض نیکیوں کا پابند اور بعض بدیوں سے مجتنب ہے تو درحقیقت اس کی یہ نیکی اور پرہیز گاری اس کے مادہ پرستانہ نظریہ حیات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان مذہبی اثرات کا نتیجہ ہے جو غیر شعوری طور پر اس کے نفس میں متمکن ہیں ۔ اس کا اخلاقی سرمایہ مذہب سے چرایا ہوا ہے اور اس کو وہ ناروا طریقے سے لامذہبی میں استعمال کر رہا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی لامذہبی و مادہ پرستی کے خزانے میں اس سرمائے کے ماخذ کی نشان دہی ہرگز نہیں کر سکتا ۔