Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهۡدِيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ بِاِيۡمَانِهِمۡ‌ۚ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهِمُ الۡاَنۡهٰرُ فِىۡ جَنّٰتِ النَّعِيۡمِ‏ ﴿9﴾
یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کا رب ان کو ان کے ایمان کے سبب ان کے مقصد تک پہنچا دے گا نعمت کے باغوں میں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی ۔
ان الذين امنوا و عملوا الصلحت يهديهم ربهم بايمانهم تجري من تحتهم الانهر في جنت النعيم
Indeed, those who have believed and done righteous deeds - their Lord will guide them because of their faith. Beneath them rivers will flow in the Gardens of Pleasure
Yaqeenan jo log eman laye aur unhon ney nek kaam kiye unn ka rab unn ko unn kay eman kay sabab unn kay maqsad tak phoncha dey ga nemat kay baghon mein jin key neechay nehren jari hongi.
۔ ( دوسری طرف ) جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، ان کے ایمان کی وجہ سے ان کا پروردگار انہیں اس منزل تک پہنچائے گا کہ نعمتوں سے بھرے باغات میں ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی ۔
بیشک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب انھیں راہ دے گا ( ف۱٦ ) ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی نعمت کے باغوں میں ،
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ﴿یعنی جنہوں نے ان صداقتوں کو قبول کرلیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں﴾ اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں ان کا ربّ ان کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا ، نعمت بھری جنتّوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی ، 13
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے انہیں ان کا رب ان کے ایمان کے باعث ( جنتوں تک ) پہنچا دے گا ، جہاں ان ( کی رہائش گاہوں ) کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہوں گی ( یہ ٹھکانے ) اُخروی نعمت کے باغات میں ( ہوں گے )
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :13 اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے ۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے: ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے ۔ ہر کام میں ، ہر شعبہ زندگی میں ، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے میں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا ۔ یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دو راہے پر ، ان کو صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے رب کی طرف سے ، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے ۔ ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ایمان کی وجہ سے ۔ یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کے نتائج ہیں؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو ، بلکہ اس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے ۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات ، تندرستی ، قوت کار ، اور لذت زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے ۔ لیکن یہ نتائج اس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو ، بلکہ اس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سے وہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے ۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی ، راست بینی ، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقو ف ہے ، مگر یہ نتائج ان عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بےکار پڑے ہوئے ہوں ، بلکہ ان عقائد کے ہیں جو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر انداز فکر اور مذاق طبع اور افتاد مزاج بن جائیں ، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں ۔ خدا کے قانون طبیعی میں وہ شخص جا کے کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے ، ان انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں ۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اس کے قانون اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے ان انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟
خوش انجام خوش نصیب لوگ نیک بختوں کا حال بیان ہو رہا ہے جو اللہ پر ایمان لائے رسولوں کو مانا ، فرمانبرداری کی نیکیوں پر چلتے رہے ، انہیں ان کے ایمان کی وجہ سے راہ مل جائے گی ۔ پل صراط سے پار ہو جائیں گے ۔ جنت میں پہنچ جائیں گے ، نور مل جائے گا ۔ جس کی روشنی میں چلیں پھریں گے ۔ پس ممکن ہے کہ ( آیت بایمانھم ) میں با سببیت کی ہو ۔ اور ممکن ہے کہ استعانت کی ہو ۔ ان کے اعمال اچھی بھلی صورت اور عطر و خوشبو بن کر ان کے پاس ان کی قبر میں آئیں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے یہ پوچھیں گے کہ تم کون ہو؟ وہ جواب دیں گے تمہارے نیک اعمال ۔ پس یہ اپنے ان نورانی عمل کی روشنی میں جنت میں پہنچ جائیں گے اور کافروں کا عمل نہایت بد صورت ، بد بو دار ہو کر اس پر چمٹ جائے گا اور اسے دھکے دے کر جہنم میں لے جائے گا ۔ یہ جو چیز کھانا چاہیں گے اسی وقت فرشتے اس تیار کرکے لائیں گے ۔ انہیں سلام کہیں گے جو جواب دیں گے اور کھائیں گے ۔ کھا کر اپنے رب کی حمد بیان کریں گے ۔ ان کے صرف سبحانک اللھم کہتے ہی دس ہزار خادم اپنے ہاتھوں میں سونے کے کٹوروں میں کھانا لے کر حاضر ہو جائیں گے اور یہ سب میں سے کھائے گا ۔ ان کا آپس میں بھی تحفہ سلام ہوگا ۔ وہاں کوئی لغو بات کانوں میں نہ پڑے گی ۔ درو دیوار سے سلامتی کی آوازیں آتی رہیں گے ۔ رب رحیم کی طرف سے بھی سلامتی کا قول ہوگا ۔ فرشتے بھی ہر ایک دروازے سے آکر سلام کریں گے ۔ آخری قول ان کا اللہ کی ثناء ہوگا ۔ وہ معبود برحق ہے اول آخر حمد و تعریف کے سزاوار ہے ۔ اسی لیے اس نے اپنی حمد بیان فرمائی مخلوق کی پیدائش کے شروع میں ، اس کی بقاء میں ، اپنی کتاب کے شروع میں ، اور اس کے نازل فرمانے کے شروع میں ۔ اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں ایک نہیں کئی ایک ہیں جیسے ( اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا Ǻ۝ڸ ) 18- الكهف:1 ) وغیرہ ۔ وہی اول آخر دنیا عقبیٰ میں لائق حمد و ثناء ہے ہر حال میں اس کی حمد ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ اہل جنت سے تسبیح و حمد اس طرح ادا ہوگی جیسے سانس چلتا رہتا ہے ۔ یہ اس لیے کہ ہر وقت نعمتیں راحتیں آرام اور آسائش بڑھتا ہوا دیکھیں گے پس لا محالہ حمد ادا ہوگی ۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کے سوا کوئی پالنہار ہے ۔