Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَلَوۡ يُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسۡتِعۡجَالَهُمۡ بِالۡخَيۡرِ لَـقُضِىَ اِلَيۡهِمۡ اَجَلُهُمۡ‌ؕ فَنَذَرُ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ‏ ﴿11﴾
اور اگر اللہ لوگوں پر جلدی سے نقصان واقع کر دیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لئے جلدی مچاتے ہیں تو ان کا وعدہ کبھی کا پورا ہو چکا ہوتا سو ہم نے ان لوگوں کو جن کو ہمارے پاس آنے کا یقین نہیں ہے ان کے حال پر چھوڑے رکھتے ہیں کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔
و لو يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير لقضي اليهم اجلهم فنذر الذين لا يرجون لقاءنا في طغيانهم يعمهون
And if Allah was to hasten for the people the evil [they invoke] as He hastens for them the good, their term would have been ended for them. But We leave the ones who do not expect the meeting with Us, in their transgression, wandering blindly
Aur agar Allah logon per jaldi say nuksan waaqay ker diya kerta jiss tarah woh faeeday kay liye jaldi machatay hain to unn ka wada kabhi ka poora ho chuka hota. So hum unn logon ko jin ko humaray pass aaney ka yaqeen nahi hai unn kay haal per chor rakhtay hain kay apni sirkashi mein bhataktay rahen.
اور اگر اللہ ( ان کافر ) لوگوں کو برائی ( یعنی عذاب ) کا نشانہ بنانے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی جلدی وہ اچھائیاں مانگنے میں مچاتے ہیں تو ان کی مہلت تمام کردی گئی ہوتی ( ٥ ) ۔ ( لیکن ایسی جلد بازی ہماری حکمت کے خلاف ہے ) لہذا جو لوگ ہم سے ( آخرت میں ) ملنے کی توقع نہیں رکھتے ، ہم انہیں ان حال پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں ۔
اور اگر اللہ لوگوں پر برائی ایسی جلد بھیجتا جیسی وہ بھلائی کی جلدی کرتے ہیں تو ان کا وعدہ پورا ہوچکا ہوتا ( ف۲۰ ) تو ہم چھوڑتے انہیں جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکا کریں ( ف۲۱ )
اگر کہیں 15 اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ دنیا کی بھلائی مانگنے میں جلدی کرتے ہیں تو ان کے مہلتِ عمل کبھی کی ختم کر دی گئی ہوتی ۔ ﴿مگر ہمارا یہ طریقہ نہیں ہے﴾ اس لیے ہم ان لوگوں کو جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں بھٹکنے کے لیے چھو ٹ دے دیتے ہیں ۔
اور اگر اللہ ( ان کافر ) لوگوں کو برائی ( یعنی عذاب ) پہنچانے میں جلدبازی کرتا ، جیسے وہ طلبِ نعمت میں جلدبازی کرتے ہیں تو یقیناً ان کی میعادِ ( عمر ) ان کے حق میں ( جلد ) پوری کردی گئی ہوتی ( تاکہ وہ مَر کے جلد دوزخ میں پہنچیں ) ، بلکہ ہم ایسے لوگوں کو جو ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے ان کی سرکشی میں چھوڑے رکھتے ہیں کہ وہ بھٹکتے رہیں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :15 اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب نصیحت اور تفہیم کی تقریر شروع ہوتی ہے ۔ اس تقریر کو پڑھنے سے پہلے اس کے پس منظر سے متعلق دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہییں: ایک یہ کہ اس تقریر سے تھوڑی مدت پہلے وہ مسلسل اور سخت بلا انگیز ، قحط ختم ہوا تھا جس کی مصیبت سے اہل مکہ چیخ اٹھے تھے ۔ اس قحط کے زمانے میں قریش کے متکبرین کی اکڑی ہوئی گردنیں بہت جھک گئی تھیں ۔ دعائیں اور زاریاں کرتے تھے ، بت پرستی میں کمی آگئی تھی ، خدائے واحد کی طرف رجوع بڑھ گیا تھا اور نوبت یہ آگئی تھی کہ آخرکار ابو سفیان نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا سے اس بلا کو ٹالنے کے لیے دعا کریں ۔ مگر جب قحط دور ہو گیا ، بارشیں ہونے لگیں اور خوشحالی کا دور آیا تو ان لوگوں کی وہی سرکشیاں اور بد اعمالیاں ، اور دین حق کے خلا ف وہی سرگرمیاں پھر شروع ہو گئیں اور جو دل خدا کی طرف رجوع کر نے لگے تھے وہ پھر اپنی سابق غفلتوں میں ڈوب گئے ۔ ( ملاحظہ ہو النحل ، آیت ۱۱۳ ۔ المومنون ، آیات ۷۵ تا ۷۷ ۔ الدخان ، آیات ۱۰ تا ۱٦ ) ۔ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی ان لوگوں کو انکار حق کی پاداش سے ڈراتے تھے تو یہ لوگ جواب میں کہتے تھے کہ تم جس عذاب الہٰی کی دھمکیاں دیتے ہو وہ آخر آ کیوں نہیں جاتا ۔ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے ۔ اسی پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا لوگوں پر رحم و کرم فرمانے میں جتنی جلدی کرتا ہے ان کو سزا دینے اور ان کے گناہوں پر پکڑ لینے میں اتنی جلدی نہیں کرتا ۔ تم چاہتے ہو کہ جس طرح اس نے تمہاری دعائیں سن کر بلائے قحط جلدی سے دور کر دی ۔ اسی طرح وہ تمہارےچیلنج سن کر اور تمہاری سرکشیاں دیکھ کر عذاب بھی فورا بھیج دے ۔ لیکن خدا کا طریقہ یہ نہیں ہے ۔ لوگ خواہ کتنی ہی سرکشیاں کیے جائیں وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے ۔ پیہم تنبیہات بھیجتا ہے اور رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب رعایت کی حد ہو جاتی ہے تب پاداش عمل کا قانون نافذ کیا جاتا ہے ۔ یہ تو ہے خدا کا طریقہ ۔ اور اس کے برعکس کم ظرف انسانوں کا طریقہ وہ ہے جو تم نے اختیار کیا کہ جب مصیبت آئی تو خدا یاد آنے لگا ، بلبلانا اور گڑ گڑانا شروع کر دیا ، اور جہاں راحت کا دور آیا کہ سب کچھ بھول گئے ۔ یہی وہ لچھن ہیں جن سے قومیں اپنے آپ کو عذاب الہٰی کا مستحق بناتی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا تذکرہ فرماتے ہیں فرمان ہے کہ میرے الطاف اور میری مہربانیوں کو دیکھو ، کہ بندے کبھی کبھی تنگ آکر ، گھبرا کر اپنے لیے ، اپنے بال بچوں کے لیے اپنے مالک کے لیے ، بد دعائیں کر بیٹھتے ہیں لیکن میں انہیں قبول کرنے میں جلدی نہیں کرتا ۔ ورنہ وہ کسی گھر کے نہ رہیں جیسے کہ میں انہی چیزوں کی برکت کی دعائیں قبول فرمالیا کرتا ہوں ۔ ورنہ یہ تباہ ہو جاتے ۔ پس بندوں کو ایسی بدعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ چنانچہ مسند بزار کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اپنی جان و مال پر بد دعا نہ کرو ۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قبولیت کی ساعت موافقت کر جائے اور وہ بد دعا قبول ہو جائے ۔ اسی مضمون کا بیان ( وَيَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَهٗ بِالْخَيْرِ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا 11؀ ) 17- الإسراء:11 ) میں ہے ۔ غرض یہ ہے کہ انسان کا کسی وقت اپنی اولاد مال وغیرہ کے لیے بد دعا کرنا کہ اللہ اسے غارت کرے وغیرہ ۔ ایک نیک دعاؤں کی طرح قبولیت میں ہی آجا کرے تو لوگ برباد ہو جائیں ۔