Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ ‌ؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِى الدُّنۡيَا ‌ۚ وَاِنَّهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ‏ ﴿130﴾
دین ابراہیمی سے وہ ہی بے رغبتی کرے گا جو محض بیوقوف ہو ، ہم نے تو اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا تھا اور آخرت میں بھی وہ نیکو کاروں میں سے ہے ۔
و من يرغب عن ملة ابرهم الا من سفه نفسه و لقد اصطفينه في الدنيا و انه في الاخرة لمن الصلحين
And who would be averse to the religion of Abraham except one who makes a fool of himself. And We had chosen him in this world, and indeed he, in the Hereafter, will be among the righteous.
Deen-e-ibrahim say wohi bey raghabti keray ga jo mehaz bey waqoof ho hum ney to ussay duniya mein bhi bar gazeedah kiya tha aur aakhirat mein bhi woh nekon kaaron mein say hai.
اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے؟ سوائے اس شخص کے جو خود اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کرچکا ہو ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں انہیں ( اپنے لیے ) چن لیا تھا ، اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہوگا ۔
اور ابراہیم کے دین سے کون منہ پھیرے ( ف۲۳۸ ) سوا اس کے جو دل کا احمق ہے اور بیشک ضرور ہم نے دنیا میں اسے چن لیا ( ف۲۳۹ ) اور بیشک وہ آخرت میں ہمارے خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے ۔ ( ف۲٤۰ )
اب کون ہے ، جو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے سے نفرت کرے ؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو ، اس کے سوا کون یہ حرکت کر سکتا ہے؟ ابراہیم علیہ السلام تو وہ شخص ہے ، جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کےلیے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہوگا ۔
اور کون ہے جو ابراہیم ( علیہ السلام ) کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس نے خود کو مبتلائے حماقت کر رکھا ہو ، اور بیشک ہم نے انہیں ضرور دنیا میں ( بھی ) منتخب فرما لیا تھا اور یقیناً وہ آخرت میں ( بھی ) بلند رتبہ مقرّبین میں ہوں گے
توحید کے دعوے اور مشرکین کا ذکر ان آیتوں میں بھی مشرکین کی تردید ہے کہ جو اپنے آپ کو دین ابراہیمی پر بتاتے تھے حالانکہ کامل مشرک تھے جبکہ حضرت خلیل اللہ کی موحدوں کے امام تھے ۔ توحید کو شرک سے ممتاز کرنے والے تھے عمر بھر میں ایک آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا بلکہ ہر مشرک سے اور ہر قسم کے شرک سے اور ہر غیر اللہ سے جو اللہ مانا جاتا ہو وہ دل سے نفرت کرتے تھے اور ان سب سے بیزار تھے ۔ اسی بنا پر قوم سے الگ ہوئے وطن چھوڑا بلکہ باپ تک کی مخالفت کی پروانہ کی اور صاف کہ دیا کہ آیت ( قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:78 ) میں بیزار ہوں ، اس چیز سے جسے تم شریک کرتے ہو میں نے تو یکسو ہو کر اپنی تمام تر توجہ اس پاک ذات کی طرف کر دی ہے ، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ، میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ۔ اور فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے صاف کہ دیا کہ میں تمہارے معبودوں سے بری ہوں تو اپنے خالق ہی کا گرویدہ ہوں ، وہی مجھے راہ راست دکھائے گا ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ) 9 ۔ التوبہ:114 ) ابراہیم نے اپنے والد کے لیے بھی صرف ایک وعدے کی بنا پر استغفار کی تھی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے رب کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، اللہ رب کعبہ کے پسندیدہ تھے اور راہ راست پر لگے ہوئے تھے ، دنیا کے بھلے لوگوں میں سے تھے اور آخرت میں بھی صالح لوگوں میں ہوں گے ۔ ان آیتوں کی طرح یہاں بھی فرمایا کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بےتدبیر اور گمراہ لوگ ہی ملت ابراہیمی کو ترک کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابراہیم کو اللہ نے ہدایت کے لیے چن لیا تھا اور بچپن سے ہی توفیق حق دے رکھی تھی ، خلیل جیسا معزز خطاب انہی کو دیا گیا ۔ وہ آخرت میں بھی سعید بخت لوگوں میں ہیں ۔ ان کے مسلک و ملت کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی میں پڑنے والے سے زیادہ بیوقوف اور ظالم اور کون ہو گا ؟ اس آیت میں یہودیوں کا بھی رد ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ما کان ابراہیم یھودیا ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ، نہ نصرانی ، نہ مشرک بلکہ موحد مسلمان اور مخلص تھے ان سے دوستی رکھنے والے صرف وہی جو ان کے فرماں بردار ہوئے اور یہ نبی اور ایمان دار اللہ بھی مومنوں کا ولی ہے ، جب کبھی اللہ فرماتا کہ یہ مان لو وہ جواب دیتے کہ اے رب العالمین میں نے مان لیا ، اسی ملت و حدانیت کی وصیت ابراہیم و یعقوب نے اپنی اولاد کو بھی کی ۔ ھاکی ضمیر کا مرجع یا تو ملت ہے یا کلمہ ، ملت سے مراد اسلام اور کلمہ سے مراد آیت ( اسلمت لرب العالمین ) ہے ۔ دیکھئے ان کے دل میں اسلام کی کس قدر محبت و عزت تھی کہ خود بھی اس پر مدت العمر عامل رہے ، اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کی ۔ اور جگہ ہے آیت ( وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ ) 43 ۔ الزخرف:28 ) ہم نے اس کلمہ کو ان کی اولاد میں بھی باقی رکھا ، بعض سلف نے ویعقوب بھی پڑھا تو بینہ پر عطف ہوگا اور مطلب یہ ہوگا کہ خلیل اللہ نے اپنی اولاد کو اور اولاد کی اولاد میں حضرت یعقوب کو جو اس وقت موجود تھے دین اسلام کی استقامت کی وصیت کی ۔ قشیری کہتے ہیں حضرت یعقوب ، حضرت ابراہیم کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے تھے ، لیکن یہ مجرد دعویٰ ہے ، جس پر کوئی صحیح دلیل نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بلکہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت ابراہیم کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ قرآن پاک کی آیت میں ہے آیت ( فَبَشَّرْنٰهَا بِاِسْحٰقَ ۙ وَمِنْ وَّرَاۗءِ اِسْحٰقَ يَعْقُوْبَ ) 11 ۔ ہود:71 ) یعنی ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی اور اس کا نصب خفض کو ہٹا کر بھی پڑھا گیا ہے پس اگر حضرت یعقوب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات میں موجود نہ ہوں تو پھر ان کا نام لینے میں کوئی زبردست فائدہ باقی نہیں رہتا ۔ سورۃ عنکبوت میں بھی ہے کہ ہم ابراہیم کو اسحاق و یعقوب عطا فرمایا اور اس کی اولاد میں ہم نے نبوت و کتاب دی اور اسی آیت میں ہے ہم نے اسے اسحاق دیا اور یعقوب زائد عطا فرمایا ۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب حضرت ابراہیم کی زندگی میں ہی تھے اگلی کتابوں میں بھی ہے کہ وہ بیت المقدس میں آئیں گے ۔ ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ پوچھتے ہیں یا رسول اللہ کونسی مسجد پہلے تعمیر کی گئی؟ آپ نے فرمایا مسجد حرام پوچھا ۔ پھر فرمایا ، مسجد بیت المقدس میں نے کہا دونوں کے درمیان کس قدر مدت تھی؟ فرمایا چالیس سال ۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی درمیانی مدت سے متعلق یہ بیان ہے حالانکہ یہ قول بالکل الٹ ہے ۔ ان دونوں نبیوں کے درمیان تو ہزاروں سال کی مدت تھی بلکہ مطلب حدیث کا کچھ اور ہی ہے اور شاہ زمان حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ الرحمن تو اس مسجد کے مجدد تھے ، موجد نہ تھے ۔ اسی طرح حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی وصیت کی تھی ، جیسے عنقریب ذکر آئے گا ۔ وصیت اس امر کی ہوتی ہے جب تک زندہ رہو مسلمان ہو کر رہو تاکہ موت بھی اسی پر آئے ۔ موت اور ہمارے اعمال عموماً انسان زندگی میں جن اعمال پر رہتا ہے ، اسی پر موت بھی آتی ہے اور جس پر مرتا ہے ، اس پر اٹھے گا بھی ۔ یہی اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ بھلائی کے قصد کرنے والے کو بھلائی کی توفیق بھی دیجاتی ہے ۔ بھلائی اس پر آسان بھی کر دی جاتی ہے اور اسے ثابت قدم بھی رکھا جاتا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ انسان جنتیوں کے کام کرتے کرتے جنت میں ایک ہاتھ دور رہ جاتا ہے کہ اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں کا کام کر کے جہنمی بن جاتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے لیکن اس سے مطلب یہ ہے کہ یہ کام اچھے برے ظاہری ہوتے ہیں ، حقیقی نہیں ہوتے ۔ چنانچہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں قرآن کہتا ہے سخاوت ، تقویٰ اور لا الہ الا اللہ کی تصدیق کرنے والے کو ہم آسانی کا راستہ آسان کر دیتے ہیں اور بخل و بےپرواہی اور بھلی بات کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہم سختی کی راہ آسان کر دیتے ہیں ۔