Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
‌وَيَقُوۡلُوۡنَ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡهِ اٰيَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ‌ ۚ فَقُلۡ اِنَّمَا الۡغَيۡبُ لِلّٰهِ فَانْتَظِرُوۡا‌ ۚ اِنِّىۡ مَعَكُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِيۡنَ‏ ﴿20﴾
اور یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ ان پر ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی کیوں نہیں نازل ہوتی؟ سو آپ فرما دیجئے کہ غیب کی خبر صرف اللہ کو ہے سو تم بھی منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں ۔
و يقولون لو لا انزل عليه اية من ربه فقل انما الغيب لله فانتظروا اني معكم من المنتظرين
And they say, "Why is a sign not sent down to him from his Lord?" So say, "The unseen is only for Allah [to administer], so wait; indeed, I am with you among those who wait."
Aur yeh log yun kehtay hain kay inn per inn kay rab ki janib say koi nishani kiyon nahi nazil hoti? So aap farma dijiye kay ghaib ki khabar sirf Allah ko hai so tum bhi muntazir raho mein bhi tumharay sath munatazir hun.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ :‘‘ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نازل نہیں کی گئی؟’’ تو ( اے پیغمبر ! تم جواب میں ) کہہ دو کہ :‘‘ غیب کی باتیں تو صرف اللہ کے اختیار میں ہیں ۔ لہذا تم انتظار کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ( ٩ ) ۔ ’’
اور کہتے ہیں ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتری ( ف٤۸ ) تم فرماؤ غیب تو اللہ کے لیے ہے اب راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ راہ دیکھ رہا ہوں ،
اور یہ جو وہ کہتے ہیں کہ اس نبی پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی ، 27 تو ان سے کہو غیب کا مالک و مختار تو اللہ ہی ہے ، اچھا ، انتظار کرو ، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں ۔ 28 ؏ ۲
اور وہ ( اب اسی مہلت کی وجہ سے ) کہتے ہیں کہ اس ( رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ان کے رب کی طرف سے کوئی ( فیصلہ کن ) نشانی کیوں نازل نہیں کی گئی ، آپ فرما دیجئے: غیب تو محض اللہ ہی کے لئے ہے ، سو تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :27 یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی برحق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے ۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہے کہ نشانی کے لیے ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوت حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو ، عادت کو ، نظام معاشرت و تمدن کو ، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آجائے ۔ اصل بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش کیا جاتا تھا ۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی ۔ اس لیے کہ وہ ایمان لاناچاہتے نہ تھے ۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں ، اس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں ( توحید و آخرت ) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظام حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑ جاتا ۔ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :28 یعنی جو کچھ اللہ نے اتارا ہے وہ تو میں نے پیش کر دیا ، اور جو اس نے نہیں اتارا وہ میرے اور تمہارے لیے”غیب“ ہے جس پر سوائے خدا کے کسی کا اختیار نہیں ، وہ چاہے تو اتارے اور نہ چاہے تو نہ اتارے ۔ اب اگر تمہارا ایمان لانا اسی پر موقوف ہے کہ جو کچھ خدا نے نہیں اتارا ہے وہ اترے تو اس کے انتظار میں بیٹھے رہو ، میں بھی دیکھوں گا کہ تمہاری یہ ضد پوری کی جاتی ہے یا نہیں ۔
ثبوت صداقت مانگنے والے کہتے ہیں کہ اگر یہ سچا نبی ہے تو جیسے آل ثمود کو اونٹنی ملی تھی انہیں ایسی کوئی نشانی کیوں نہیں ملی؟ چاہیے تھا کہ یہ صفا پہاڑ کو سونا بنا دیتا یا مکے کے پہاڑوں کو ہٹا کر یہاں کھیتیاں باغ اور نہریں بنا دیتا ۔ گو اللہ کی قدرت اس سے عاجز نہیں لیکن اس کی حکمت کا تقاضا وہی جانتا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باغات اور نہریں بنا دے لیکن یہ پھر بھی قیامت کے منکر ہی رہیں گے اور آخر جہنم میں جائیں گے ۔ اگلوں نے بھی ایسے معجزے طلب کئے دکھائے گئے پھر بھی جھٹلایا تو عذاب اللہ آگئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی فرمایا گیا تھا کہ اگر تم چاہو تو میں ان کے منہ مانگے معجزے دکھا دوں لیکن پھر بھی یہ کافر رہے تو غارت کر دیئے جائیں گے اور اگر چاہو تو مہلت دوں ۔ آپ نے اپنے حلم و کرم سے دوسری بات ہی اختیار کی ۔ یہاں حکم ہوتا ہے کہ غیب کا علم اللہ ہی کو ہے تمام کاموں کا انجام وہی جانتا ہے ۔ تم ایمان نہیں لاتے تو نتیجے کے منتظر رہو ۔ دیکھو میرا کیا ہوتا ہے اور تمہارا کیا ہوتا ہے؟ آہ ! کیسے بدنصیب تھے جو مانگتے تھے اس سے بدرجہا بڑھ کر دیکھ چکے تھے اور سب معجزوں کو جانے دو چاند کو ایک اشارے سے دو ٹکڑے کر دینا ایک ٹکڑے کا پہاڑ کے اس طرف اور دوسرے کا اس طرف چلے آنا کیا یہ معجزہ کس طرح اور کس معجزے سے کم تھا ؟ لیکن چونکہ ان کا یہ سوال محض کفر کی بنا پر تھا ورنہ یہ بھی اللہ دکھا دیتا جن پر عذاب عملاً آجاتا ہے وہ چاہے دنیا بھر کے معجزے دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا ۔ اگر ان پر فرشتے اترتے اگر ان سے مردے باتیں کرتے اگر ہر ایک چیز ان کے سامنے کر دی جاتی پھر بھی انہیں تو ایمان نصیب نہ ہوتا اسی کا بیان ( وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14۝ۙ ) 15- الحجر:14 ) اور آیت وان ترو کسفا من السلامء الخ ، اور آیت ( وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتٰبًا فِيْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْهُ بِاَيْدِيْهِمْ لَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ هٰذَآ اِلَّا سِحْـرٌ مُّبِيْنٌ Ċ۝ ) 6- الانعام:7 ) میں بھی ہوا ہے ۔ پس ایسے لوگوں کو ان کے منہ مانگے معجزے دکھانے بھی بےسود ہیں ۔ اس لیے کہ انہوں نے تو کفر پر گرہ لگا لی ہے ۔ اس لیے فرما دیا کہ آگے چل کر دیکھ لینا کہ کیا ہوتا ہے ۔