Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَاِذَاۤ اَذَقۡنَا النَّاسَ رَحۡمَةً مِّنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡهُمۡ اِذَا لَهُمۡ مَّكۡرٌ فِىۡۤ اٰيَاتِنَا‌ ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسۡرَعُ مَكۡرًا‌ ؕ اِنَّ رُسُلَنَا يَكۡتُبُوۡنَ مَا تَمۡكُرُوۡنَ‏ ﴿21﴾
اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ تو فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں ۔
و اذا اذقنا الناس رحمة من بعد ضراء مستهم اذا لهم مكر في اياتنا قل الله اسرع مكرا ان رسلنا يكتبون ما تمكرون
And when We give the people a taste of mercy after adversity has touched them, at once they conspire against Our verses. Say, " Allah is swifter in strategy." Indeed, Our messengers record that which you conspire
Aur jab hum logon ko iss amar kay baad kay inn per koi museebat parr chuki ho kissi nemat ka maza chakha detay hain to woh foran hi humari aayaton kay baray mein caalen chalney lagtay hain aap keh dijiye kay Allah chaal chalney mein tum say ziyada tez hai bil yaqeen humaray farishtay tumhari sab chaalon ko likh rahey hain.
اور انسانوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کو پہنچنے والی کسی تکلیف کے بعد ہم ان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو ذرا سی دیر میں وہ ہماری نشانیوں کے بارے میں چالبازی شروع کردیتے ہیں ( ١٠ ) ۔ کہہ دو کہ :‘‘ اللہ اس سے بھی جلدی کوئی چال چل سکتا ہے ( ١١ ) یقینا ہمارے فرشتے تمہاری ساری چالبازیوں کو لکھ رہے ہیں ۔
اور جب کہ ہمارے آدمیوں کو رحمت کا مزہ دیتے ہیں کسی تکلیف کے بعد جو انہیں پہنچی تھی جبھی وہ ہماری آیتوں کے ساتھ داؤں چلتے ہیں ( ف٤۹ ) تم فرمادو اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے جلد ہوجاتی ہے ( ف۵۰ ) بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر لکھ رہے ہیں ( ف۵۱ )
لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب انہیں رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملے میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ 29 ان سے کہو اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ، اس کے فرشتے تمہاری سب مکّاریوں کو قلمبند کر رہے ہیں ۔ 30
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد ( اپنی ) رحمت سے لذت آشنا کرتے ہیں تو فوراً ( ہمارے احسان کو بھول کر ) ہماری نشانیوں میں ان کا مکر و فریب ( شروع ) ہو جاتا ہے ۔ فرما دیجئے: اللہ مکر کی سزا جلد دینے والا ہے ۔ بیشک ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ، جو بھی فریب تم کر رہے ہو ( اسے ) لکھتے رہتے ہیں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :29 یہ پھر اسی قحط کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر آیات ۱۱ – ۱۲ میں گزر چکا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم نشانی آخر کس منہ سے مانگتے ہو ۔ ابھی جو قحط تم پر گزرا ہے اس میں تم اپنے ان معبودوں سے مایوس ہو گئے تھے جنہیں تم نے اللہ کے ہاں اپنا سفارشی ٹھیرا رکھا تھا اور جن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ فلاں آستانے کی نیاز تو تیر بہدف ہے ۔ اور فلاں درگاہ پر چڑھاوا چڑھانے کی دیر ہے کہ مراد بر آتی ہے ۔ تم نے دیکھ لیا کہ ان نام نہاد خداؤں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور سارے اختیارات کا مالک صرف اللہ ہے ۔ اسی وجہ سے تو آخرکار تم اللہ ہی سے دعائیں مانگنے لگے تھے ۔ کیا یہ کافی نشانی نہ تھی کہ تمہیں اس تعلیم کے برحق ہونے کا یقین آجاتا جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم کو دے رہے ہیں؟ مگر اس نشانی کو دیکھ کر تم نے کیا کیا ؟ جونہی کہ قحط دور ہوا اور باران رحمت نے تمہاری مصیبت کا خاتمہ کر دیا ، تم نے اس بلا کے آنے اور پھر اس کے دور ہونے کے متعلق ہزار قسم کی توجیہیں اور تاویلیں ( چالبازیاں ) کرنی شروع کر دیں تاکہ توحید کے ماننے سے بچ سکو اور اپنے شرک پر جمے رہ سکو ۔ اب جن لوگوں نے اپنے ضمیر کو اس درجہ خراب کر لیا ہو انہیں آخر کونسی نشانی دکھائی جائے اور اس کے دکھانے سے حاصل کیا ہے؟ سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :30 اللہ کی چال سے مراد یہ ہے کہ اگر تم حقیقت کو نہیں مانتے اور اس کے مطابق اپنا رویہ درست نہیں کرتے تو وہ تمہیں اسی باغیانہ روش پر چلتے رہنے کی چھوٹ دے دے گا ، تم کو جیتے جی اپنے رزق اور اپنی نعمتوں سے نوازتا رہے گا جس سے تمہارا نشہ زندگانی یونہی تمہیں مست کیے رکھے گا ، اور اس مستی کے دوران جو کچھ تم کرو گے وہ سب اللہ کے فرشتے خاموشی کے ساتھ بیٹھے لکھتے رہیں گے ، حتی کہ اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے کرتوتوں کا حساب دینے کے لیے دھر لیے جاؤ گے ۔
احسان فراموش انسان انسان کی ناشکری کا بیان ہو رہا ہے کہ اسے سختی کے بعد کی آسانی ، خشک سالی کے بعد کی ترسالی ، قحط کے بعد کی بارش اور بھی ناشکرا کر دیتی ہے یہ ہماری آیتوں سے مذاق اڑانے لگتا ہے ۔ کیا تو اس وقت ہماری طرف ان کا جھکنا اور کیا اس وقت ان کا اکڑنا ۔ رات کو بارش ہوئی ، صبح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر پوچھا جانتے بھی ہو رات کو باری تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے؟ صحابہ نے کہا ہمیں کیا خبر؟ آپ نے فرمایا اللہ کا ارشاد ہوا ہے کہ صبح کو میرے بہت سے بندے ایماندار ہو جائیں گے اور بہت سے کافر ۔ کچھ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے اور ستاروں کی ایسی تاثیروں کے منکر ہو جائیں گے اور کچھ کہیں گے کہ فلاں فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش برسائی گئی وہ مجھ سے کافر ہو جائیں گے اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے بن جائیں گے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ جیسے یہ چالبازی ان کی طرف سے ہے ۔ میں بھی اس کے جواب سے غافل نہیں انہیں ڈھیل دیتا ہوں ۔ یہ اسے غفلت سمجھتے ہیں پھر جب پکڑ آجاتی ہے تو حیران و ششدر رہ جاتے ہیں ۔ میں غافل نہیں ۔ میں نے تو اپنے امین فرشتے چھوڑ رکھے ہیں جو ان کے کرتوت برابر لکھتے جا رہے ہیں ۔ پھر میرے سامنے پیش کریں گے میں خود دانا بینا ہوں لیکن تاہم وہ سب تحریر میرے سامنے ہوگی ۔ جس میں ان کے چھوٹے بڑے بڑے بھلے سب اعمال ہوں گے ۔ اسی اللہ کی حفاظت میں تمہارے خشکی اور تری کے سفر ہوتے ہیں ۔ تم کشتیوں میں سوار ہو ، موافق ہوائیں چل رہی ہیں ۔ کشتیاں تیر کی طرح منزل مقصود کو جا رہی ہیں تم خوشیاں منا رہے ہو کہ یکایک باد مخالف چلی اور چاروں طرف سے پہاڑوں کی طرح موجیں اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ سمندر میں تلاطم شروع ہو گیا ۔ کشتی تنکے کی طرح جھکولے کھانے لگی اور تمہارے کلیجے الٹنے لگے ۔ ہر طرف سے موت نظر آنے لگی ، اس وقت سارے بنے بنائے معبود اپنی جگہ دھرے رہ گئے اور نہایت خشوع وخضوع سے صرف مجھ سے دعائیں مانگیں جانے لگیں وعدے کئے جانے لگے کہ اب کے اس مصیبت سے نجات مل جانے کے بعد شکر گزاری میں باقی عمر گزار دیں گے ، توحید میں لگے رہیں گے کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائیں گے ، آج سے خالص توبہ ہے ۔ لیکن ادھر نجات ملی ، کنارے پر اترے ، خشکی میں چلے پھرے کہ اس مصیبت کے وقت کو اس خالص دعا کو پھر اقرار شکر و توحید کو یکسر بھول گئے اور ایسے ہوگئے گویا ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا ۔ ہم سے کبھی معاملہ ہی نہ پڑا تھا ۔ ناحق اکڑفوں کرنے لگے ، مستی میں آگئے ۔ لوگو ! تمہاری اس سرکشی کا وبال تم پر ہی ہے ۔ تم اس سے دوسروں کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کر رہے ہو ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ گناہ جس پر یہاں بھی اللہ کی پکڑ نازل ہو اور آخر میں بھی بدترین عذاب ہو فساد و سرکشی اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی نہیں ۔ تم اس دنیائے فانی کے تھوڑے سے برائے نام فائدے کو چاہے اٹھالو لیکن آخر انجام تو میری طرف ہی ہے ۔ میرے سامنے آؤ گے میرے قبضے میں ہوگے ۔ اس وقت ہم خود تمہیں تمہاری بد اعمالیوں پر متنبہ کریں گے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دیں گے لہذا اچھائی پاکر ہمارا شکر کرو اور برائی دیکھ کر اپنے سوا کسی اور کو ملامت اور الزام نہ دو ۔