Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
قُلۡ هَلۡ مِنۡ شُرَكَآٮِٕكُمۡ مَّنۡ يَّهۡدِىۡۤ اِلَى الۡحَـقِّ‌ؕ قُلِ اللّٰهُ يَهۡدِىۡ لِلۡحَقِّ‌ؕ اَفَمَنۡ يَّهۡدِىۡۤ اِلَى الۡحَقِّ اَحَقُّ اَنۡ يُّتَّبَعَ اَمَّنۡ لَّا يَهِدِّىۡۤ اِلَّاۤ اَنۡ يُّهۡدٰى‌ۚ فَمَا لَكُمۡ كَيۡفَ تَحۡكُمُوۡنَ‏ ﴿35﴾
آپ کہئے کہ تمہارے شرکاء میں کوئی ایسا ہے کہ حق کا راستہ بتا تا ہو؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی حق کا راستہ بتاتا ہے تو پھر آیا جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے پس تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو ۔
قل هل من شركاىكم من يهدي الى الحق قل الله يهدي للحق افمن يهدي الى الحق احق ان يتبع امن لا يهدي الا ان يهدى فما لكم كيف تحكمون
Say, "Are there of your 'partners' any who guides to the truth?" Say, " Allah guides to the truth. So is He who guides to the truth more worthy to be followed or he who guides not unless he is guided? Then what is [wrong] with you - how do you judge?"
Aap kahiye kay tumharay shurka mein koi aisa hai kay haq ka raasta batata ho? Aap keh dijiye kay Allah hi haq ka raasta batata hai. To phir aaya jo shaks haq ka raasta batata ho woh ziyada ittabaa kay laeeq hai ya woh shaks jiss ko baghair bataye khud hi raasta na soojhay? Pus tum ko kiya hogaya hai tum kaisay faislay kertay ho.
کہو کہ :‘‘ جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو ، کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو تمہیں حق کا راستہ دکھائے؟’’ کہو کہ :‘‘ اللہ حق کا راستہ دکھاتا ہے ، اب بتاؤ کہ جو حق کا راستہ دکھاتا ہو کیا وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کی بات مانی جائے ، یا وہ ( زیادہ حق دار ہے ) جس کو خود اس وقت تک راستہ نہ سوجھے جب تک کوئی دوسرا اس کی رہنمائی نہ کرے؟ بھلا تمہیں ہو کیا گیا ہے ؟ تم کس طرح کی باتیں طے کرلیتے ہو؟’’
تم فرماؤ تمہارے شریکوں میں کوئی ایسا ہے کہ حق کی راہ دکھائے ( ف۸۸ ) تم فرماؤ کہ اللہ حق کی راہ دکھاتا ہے ، تو کیا جو حق کی راہ دکھائے اس کے حکم پر چلنا چاہیے یا اس کے جو خود ہی راہ نہ پائے جب تک راہ نہ دکھایا جائے ( ف۸۹ ) تو تمہیں کیا ہوا کیسا حکم لگاتے ہو ،
اِن سے پوچھو تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہو ؟ 43 ۔ ۔ ۔ ۔ کہو وہ صرف اللہ ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ پھر بھلا بتاؤ جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے وہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے یا وہ جو رہنمائی نہیں کر سکتا اِلّا یہ کہ اس کی رہنمائی کی جائے؟ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے ، کیسے الٹے الٹے فیصلے کرتے ہو؟
آپ ( ان سے دریافت ) فرمائیے: کیا تمہارے ( بنائے ہوئے ) شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف رہنمائی کرسکے ، آپ فرما دیجئے کہ اللہ ہی ( دینِ ) حق کی ہدایت فرماتا ہے ، تو کیا جو کوئی حق کی طرف ہدایت کرے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اس کی فرمانبرداری کی جائے یا وہ جو خود ہی راستہ نہیں پاتا مگر یہ کہ اسے راستہ دکھایا جائے ( یعنی اسے اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جائے جیسے کفار اپنے بتوں کو حسبِ ضرورت اٹھا کر لے جاتے ) ، سو تمہیں کیا ہو گیا ہے ، تم کیسے فیصلے کرتے ہو
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :43 یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے ۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات ، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے ۔ بلکہ اس کی ایک ضرورت ( اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت ) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ ، اس سروسامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اس کے تصرف میں ہے ، ان بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف ، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے ، اور مجموعی طور پر اس نظام کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہرحال اس کو کام کرنا ہے ، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں ۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ” حق “ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ” ہدایت حق “ ہے ۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور ان سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے ” ہدایت حق “حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں: ایک وہ دیویاں ، دیوتا اور زندہ یا مردہ انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے ۔ سو ان کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریقے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں ۔ رہی ہدایت حق ، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی ، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے ان کی طرف رجوع کیا ، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق ، معاشرت ، تمدن ، معیشت ، سیاست ، قانون ، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں ۔ دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے ۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ ” رہنمائے حق “ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا ان میں سے کسی کا علم بھی ان تمام حقائق پر حاوی ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا ان میں سے کوئی بھی ان کمزوریوں سے ، ان تعصبات سے ، ان شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے ، ان اغراض و خواہشات سے ، ان رجحانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے ، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا ، تو آخر یہ لوگ” ہدایت حق “ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو ، تمہارے ان مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں ۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو ، کوئی ملجا و ماویٰ ہو ، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اس عالم اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے ۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانین حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے ۔ سو اس آخری سوال نے اس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے ۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی ( Secular ) اصول تمدن و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے ۔