Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَمَا كَانَ هٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ يُّفۡتَـرٰى مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلٰـكِنۡ تَصۡدِيۡقَ الَّذِىۡ بَيۡنَ يَدَيۡهِ وَتَفۡصِيۡلَ الۡكِتٰبِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ﴿37﴾
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اللہ ( کی وحی ) کے بغیر ( اپنے ہی سے ) گھڑ لیا گیا ہو ۔ بلکہ یہ تو ( ان کتابوں کی ) تصدیق کرنے والا ہے جو اس کے قبل نازل ہو چکی ہیں اور کتاب ( احکام ضروریہ ) کی تفصیل بیان کرنے والا ہے اس میں کوئی بات شک کی نہیں کہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔
و ما كان هذا القران ان يفترى من دون الله و لكن تصديق الذي بين يديه و تفصيل الكتب لا ريب فيه من رب العلمين
And it was not [possible] for this Qur'an to be produced by other than Allah , but [it is] a confirmation of what was before it and a detailed explanation of the [former] Scripture, about which there is no doubt, from the Lord of the worlds.
Kiya yeh log yun kehtay hain kay aap ney iss ko gharr liya hai? Aap keh dijiye kay phir tum iss ki misil aik hi surat lao aur jin jin ghair Allah ko bula sako bula lo agar sachay ho.
اور یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے کسی نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہو ، اللہ نے نہ اتارا ہو بلکہ یہ ( وحی کی ) ان باتوں کی تصدیق کرتا ہے جو اس سے پہلے آچکی ہیں ، اور اللہ نے جو باتیں ( لوح محفوظ میں ) لکھ رکھی ہیں ، ان کی تفصیل بیان کرتا ہے ، ( ٢١ ) اس میں ذرا شک کی گنجائش نہیں ہے ۔ یہ اس ذات کی طرف سے ہے جو تمام جہانوں کی پرورش کرتی ہے ۔
اور اس قرآن کی یہ شان نہیں کہ کوئی اپنی طرف سے بنالے بے اللہ کے اتارے ( ف۹۲ ) ہاں وہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے ( ف۹۳ ) اور لوح میں جو کچھ لکھا ہے سب کی تفصیل ہے اس میں کچھ شک نہیں ہے پروردگار عالم کی طرف سے ہے ،
اور یہ قرآن وہ چیز نہیں ہے جو اللہ کی وحی و تعلیم کے بغیر تصنیف کر لیا جائے ۔ بلکہ یہ تو جو کچھ پہلے آچکا تھا اس کی تصدیق اور الکتاب کی تفصیل ہے ۔ 45 اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فرمانروائے کائنات کی طرف سے ہے ۔
یہ قرآن ایسا نہیں ہے کہ اسے اللہ ( کی وحی ) کے بغیر گھڑ لیا گیا ہو لیکن ( یہ ) ان ( کتابوں ) کی تصدیق ( کرنے والا ) ہے جو اس سے پہلے ( نازل ہوچکی ) ہیں اور جو کچھ ( اللہ نے لوح میں یا احکامِ شریعت میں ) لکھا ہے اس کی تفصیل ہے ، اس ( کی حقانیت ) میں ذرا بھی شک نہیں ( یہ ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے ہے
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :45 جو کچھ پہلے آچکا تپا اس کی تصدیق ہے“ ، یعنی ابتدا سے جو اصولی تعلیمات انبیاء علیہم السلام کی معرفت انسان کو بھیجی جاتی رہی ہیں یہ قرآن ان سے ہٹ کر کوئی نئی چیز نہیں پیش کر رہا ہے بلکہ انہی کی تصدیق و توثیق کر رہا ہے ۔ اگر یہ کسی نئے مذہب کے بانی کی ذہنی اپج کا نتیجہ ہوتا تو اس میں ضرور یہ کوشش پائی جاتی کہ پرانی صداقتوں کے ساتھ کچھ اپنا نرالا رنگ بھی ملا کر اپنی شان امتیاز نمایاں کی جائے ۔ ” الکتاب کی تفصیل ہے“ ، یعنی ان اصولی تعلیمات کو جو تمام کتب آسمانی کا لبّ لباب ( الکتاب ) ہیں ، اس میں پھیلا کر دلائل و شواہد کے ساتھ ، تلقین و تفہیم کے ساتھ ، تشریح و توضیح کے ساتھ ، اور عملی حالات پر انطباق کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔
اعجاز قرآن حکیم قرآن کریم کے اعجاز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہو نے کا بیان ہو رہا ہے کہ کوئی اس کا بدل اور مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اس جیسا قرآن بلکہ اس جیسی دس سورتیں بلکہ ایک سورت بھی کسی کے بس کی نہیں ۔ یہ بے مثل قرآن بے مثل اللہ کی طرف سے ہے ۔ اس کی فصاحت و بلاغت ، اس کی وجاہت و حلاوت ، اس کے معنوں کی بلندی ، اس کے مضامین کی عمدگی بالکل بے نظیر چیز ہے ۔ اور یہی دلیل ہے اس کی کہ یہ قرآن اس اللہ کی طرف سے ہے جس کی ذات بے مثل صفتیں بے مثل ، جس کے اقوال بے مثل ، جس کے افعال بے مثل ، جس کا کلام اس چیز سے عالی اور بلند کہ مخلوق کا کلام اس کے مشابہ ہو سکے ۔ یہ کلام تو رب العالمین کا ہی کلام ہے ، نہ کوئی اور اسے بنا سکے ، نہ یہ کسی اور کا بنایا ہوا ۔ یہ تو سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ، ان پر نگہبانی کرتا ہے ، ان کا اظہار کرتا ہے ، ان میں جو تحریف تبدیل تاویل ہوئی ہے اسے بے حجاب کرتا ہے ، حلال و حرام جائز و ناجائز غرض کل امور شرع کا شافی اور پورا بیان فرماتا ہے ۔ پس اس کے کلام اللہ ہو نے میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں اگلی خبریں ہیں اس میں آنے والی پیش گوئیاں ہیں اور آنے والی خبریں ہیں ۔ سب جھگڑوں کے فیصلے ہیں سب احکام کے حکم ہیں ۔ اگر تمہیں اس کے کلام اللہ ہو نے میں شک ہے ۔ تو اسے گھڑا ہوا سمجھتے ہو اور کہتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے کہہ لیا ہے تو جاؤ تم سب مل کر ایک ہی سورۃ اس جیسی بنا لاؤ اور کل انسان اور جنوں سے مدد بھی لے لو ۔ یہ تیسرا مقام ہے جہاں کفار کو مقابلے پر بلا کر عاجز کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہوں تو اس کے مقابلے میں اسی جیسا کلام پیش کریں ۔ لیکن یہ ہے ناممکن یہ خبر بھی ساتھ ہی دے دی تھی کہ انسان و جنات سب جمع ہو جائیں ایک دوسرے کا ساتھ دیں لیکن اس قرآن جیسا بنا کر پیش نہیں کر سکتے ۔ اس پورے قرآن کے مقابلہ سے جب وہ عاجز و لاچار ثابت ہو چکے تو ان سے مطالبہ ہوا کہ اس جیسی صرف دس سورتیں ہی بنا کر لاؤ ۔ سورہ ہود کے شروع کی ( قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 13؀ ) 11-ھود:13 ) میں یہ فرمان ہے ۔ جب یہ بھی ان سے نہ ہو سکا تو اور آسانی کر دی گئی اور سورہ بقرہ میں جو مدنی ہے فرمایا کہ اچھا ایک ہی سورت اس جیسی بنا کر پیش کرو ۔ ۔ وہاں بھی ساتھ ہی فرمایا کہ نہ یہ تمہارے بس کی بات ہے نہ ساری مخلوق کے بس کی بات ۔ پس اس الہامی کتاب کو جھٹلا کر عذاب الٰہی مول نہ لو ۔ اس وقت کلام کی فصاحت و بلاغت پر پورا زور تھا ۔ عرب اپنے مقابلے میں سارے جہاں کو عجم یعنی گونگا کہا کرتے تھے ۔ اپنی زبان پر بڑا گھمنڈ تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے وہ قرآن اتارا کہ سب سے پہلے انہیں شاعروں اور زبان دانوں اور عالموں کی گردنیں اس کے سامنے خم ہوئیں جیسے سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس معجزے نے کہ مردوں کو بحکم الٰہی جِلا دینا ۔ مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو بحکم رب شفا دے دینا ، دنیا کے سب سے پہلے معالجوں اور اطباء کو اللہ کی راہ پر لا کھڑا کر دیا ۔ کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ یہ کام دوا کا نہیں اللہ کا ہے ۔ جادو گروں نے سانپ کو جو حضرت موسیٰ کی لکڑی تھی دیکھتے ہی آپ کی نبوت کا یقین کر لیا اور عاجز و درماندہ ہوگئے ۔ اسی طرح اس قرآن نے فصیح و بلیغ لوگوں کی زبانیں بند کردیں ۔ ان کے دلوں میں یقین آگیا کہ بیشک یہ کلام انسان کا کلام نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نبیوں کو ایسے معجزے دئیے گئے کہ ان کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے ۔ میرا ایسا معجزہ قرآن ہے پس مجھے امید ہے کہ میرے تابعدار بہ نسبت ان کے بہت ہی زیادہ ہوں گے ۔ یہ ( کافر ) لوگ بغیر سوچے سمجھے ، بغیر علم حاصل کئے اسے جھٹلانے لگے ۔ اب تک تو اس کے مصداق اور حقیقت تک بھی یہ نہیں پہنچے ۔ اپنی جہالت و سفاہت کی وجہ سے اس کی ہدایت اس کے علم سے محروم رہ گئے اور چلانا شروع کر دیا کہ ہم اسے نہیں مانتے ۔ ان سے پہلے کی امتوں نے بھی اللہ کے کلام کو اسی طرح جھٹلا دیا تھا جس بنا پر وہ ہلاک کر دیئے گئے ۔ تو آپ نے دیکھ لیا کہ ان کا کیسا برا انجام ہوا ۔ کسی طرح ان کے پرخچے اڑے؟ ہمارے رسولوں کو ستانے ان کے نہ ماننے کا کبھی انجام اچھا نہیں ہوا ۔ تمہیں ڈرنا چاہیے کہیں انہیں آفتوں کا نشانہ تم بھی نہ بنو ۔ تیری امید کے بھی بعض لوگ تو اس پر ایمان لائے تجھے رسول برحق مانا ہے ۔ تیری باتوں سے نفع اٹھا رہے ہیں ۔ اور بعض اور ضلالت کے مستحق اس کے سامنے ہیں ۔ وہ عادل ہے ظالم نہیں ۔ ہر ایک کو اس کا حصہ دیتا ہے ۔ وہ برکت اور بلندی والا پاک اور انتہائی حسن والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔