اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تمہاری طرف دیکھتے ہیں ( مگر دل میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ اندھوں جیسے ہیں ) تو کیا تم اندھوں کو راستہ دکھاؤ گے ، چاہے انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو؟ ( ٢٣ )
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :51
یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے ۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں ، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے ۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے ۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا ۔
ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے ۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے ، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے ۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ ان کو ان کی اس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں ۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریق زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریق زندگی کیا ہے ۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی ان خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو ۔ اس حالت میں عین اس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سنی ان سنی کیے جا رہے ہوں ، اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو ، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں ۔ یہ بات کہنے سے اس دوست کا منشا یہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے ۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہوگی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے ۔