Surah

Information

Surah # 10 | Verses: 109 | Ruku: 11 | Sajdah: 0 | Chronological # 51 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 40, 94, 95, 96, from Madina
وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّنۡظُرُ اِلَيۡكَ‌ ؕ اَفَاَنۡتَ تَهۡدِى الۡعُمۡىَ وَ لَوۡ كَانُوۡا لَا يُبۡصِرُوۡنَ‏ ﴿43﴾
اور ان میں بعض ایسے ہیں کہ آپ کو دیکھ رہے ہیں ۔ پھر کیا آپ اندھوں کو راستہ دکھلانا چاہتے ہیں گو ان کو بصیرت بھی نہ ہو؟
و منهم من ينظر اليك افانت تهدي العمي و لو كانوا لا يبصرون
And among them are those who look at you. But can you guide the blind although they will not [attempt to] see?
Aur inn mein baaz aisay hain jo aap ko takk rahey hain. Phir kiya aap andhon ko raasta dikhlana chahatay hain go inn ko baseerat bhi na ho?
اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تمہاری طرف دیکھتے ہیں ( مگر دل میں انصاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ اندھوں جیسے ہیں ) تو کیا تم اندھوں کو راستہ دکھاؤ گے ، چاہے انہیں کچھ بھی سجھائی نہ دیتا ہو؟ ( ٢٣ )
اور ان میں کوئی تمہاری طرف تکتا ہے ( ف۱۰۹ ) کیا تم اندھوں کو راہ دکھا دو گے اگرچہ وہ نہ سوجھیں ،
اِن میں سے بہت سے لوگ ہیں جو تجھے دیکھتے ہیں ، مگر کیا تو اندھوں کو راہ بتائے گا خواہ انہیں کچھ نہ سوجھتا ہو ؟ 51
ان میں سے بعض وہ ہیں جو ( ظاہراً ) آپ کی طرف دیکھتے ہیں ، کیا آپ اندھوں کو راہ دکھا دیں گے خواہ وہ کچھ بصارت بھی نہ رکھتے ہوں
سورة یُوْنُس حاشیہ نمبر :51 یہاں بھی وہی بات فرمائی گئی ہے کہ جو اوپر کے فقرے میں ہے ۔ سر کی آنکھیں کھلی ہونے سے کچھ فائدہ نہیں ، ان سے تو جانور بھی آخر دیکھتا ہی ہے ۔ اصل چیز دل کی آنکھوں کا کھلا ہونا ہے ۔ یہ چیز اگر کسی شخص کو حاصل نہ ہو تو وہ سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ نہیں دیکھتا ۔ ان دونوں آیتوں میں خطاب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر ملامت ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جن کی اصلاح کے آپ درپے تھے ۔ اور اس ملامت کی غرض بھی محض ملامت کرنا ہی نہیں ہے بلکہ طنز کا تیر و نشتر اس لیے چبھویا جا رہا ہے کہ ان کی سوئی ہوئی انسانیت اس کی چبھن سے کچھ بیدار ہو اور ان کی چشم و گوش سے ان کے دل تک جانے والا راستہ کھلے ، تا کہ معقول بات اور درد مندانہ نصیحت وہاں تک پہنچ سکے ۔ یہ انداز بیان کچھ اس طرح کا ہے جیسے کوئی نیک آدمی بگڑے ہوئے لوگوں کے درمیان بلند ترین اخلاقی سیرت کے ساتھ رہتا ہو اور نہایت اخلاص و دردمندی کے ساتھ ان کو ان کی اس گری ہوئی حالت کا احساس دلا رہا ہوں جس میں وہ پڑے ہوئے ہیں ۔ اور بڑی معقولیت و سنجیدگی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہو کہ ان کے طریق زندگی میں کیا خرابی ہے اور صحیح طریق زندگی کیا ہے ۔ مگر کوئی نہ تو اس کی پاکیزہ زندگی سے سبق لیتا ہو نہ اس کی ان خیر خواہانہ نصیحتوں کی طرف توجہ کرتا ہو ۔ اس حالت میں عین اس وقت جبکہ وہ ان لوگوں کو سمجھانے میں مشغول ہو اور وہ اس کی باتوں کو سنی ان سنی کیے جا رہے ہوں ، اس کا کوئی دوست آکر اس سے کہے کہ میاں یہ تم کن بہروں کو سنا رہے ہو اور کن اندھوں کو راستہ دکھانا چاہتے ہو ، ان کے تو دل کے کان بند ہیں اور ان کی ھیے کی آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں ۔ یہ بات کہنے سے اس دوست کا منشا یہ نہیں ہوگا کہ وہ مرد صالح اپنی سعی اصلاح سے باز آجائے ۔ بلکہ دراصل اس کی غرض یہ ہوگی کہ شاید اس طنز اور ملامت ہی سے ان نیند کے ماتوں کو کچھ ہوش آجائے ۔